Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

قطری الغفران قبیلہ: ’وہ جنہیں معافی نہ مل سکی‘

الغفران قبیلے کے لوگ حکومت وقت سے انصاف مانگ رہے ہیں۔ فوٹوعرب نیوز
قطر کا الغفران قبیلہ جس پر کئی سال پہلے موجودہ امیر کے خلاف بغاوت میں سابق امیر قطر شیخ خلیفہ کا ساتھ  دینے کا الزام ہے، آج بھی انصاف کے لیے ٹھوکریں کھا رہا ہے۔ قبیلے کے لوگ حکومت وقت سے شہریت کا حق ا ور انصاف مانگ رہے ہیں۔
عرب نیوز ویب سائٹ کے مطابق جون 1995 میں قطر کے اس وقت کے ولی عہدشیخ حمد بن خلیفہ آل ثانی نے اپنے والد شیخ خلیفہ آل ثانی کو بغاوت میں معزول کردیا تھا۔
 جب شیخ خلیفہ آل ثانی کا تختہ الٹا گیا تو وہ ملک سے باہر تھے۔ ولی عہدشیخ حمد بن خلیفہ نے فوری طور پر اپنے اقتدار کے تحفظ کے لیے آل ثانی خاندان کے رہنماﺅں اور اہم قبائل کی بیعت حاصل کرلی۔

 ناکام بغاوت کے بعد قطر کے الغفران قبیلے کے 6 ہزار ارکان کی شہریت منسوخ کی گئی۔ فوٹوعرب نیوز

تاہم آئندہ برس فروری میں سابق قطری حکمراں کے حا میوں نے معزول رہنما کو دوبارہ برسراقتدار لانے کے لیے جوابی بغاوت کی کوشش کی جو نا کام رہی کیوں کہ معزول امیر مقررہ وقت پر دوحہ ایئرپورٹ واپس نہیں آسکے تھے۔
ناکام بغاوت کے فوری بعد حکومت نے متعدد قطری باشندوں کو گرفتار کرلیا ۔ان کی شہریت چھین لی گئی۔ انہیں قید تنہائی میں رکھا گیا اور پھر ملک بدر کردیا گیا تھا۔
 قطر کے الغفران قبیلے کے 6 ہزار ارکان کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ انہیں اپنا آبائی وطن چھوڑنے پر مجبور کیا گیا۔ ان پر بغاوت کے ماسٹر مائنڈ اور شیخ حمد کو قتل کرنے کی کوشش کرنے کا الزام عائد کیا گیاتھا۔
 یاد رہے کہ الغفران قبیلہ، نیم خانہ بدوش المرہ گروپ کی ایک شاخ ہے جو قطر کے سب سے بڑے قبیلے میں سے ایک ہے۔ ایک تخمینے کے مطابق اس کے 10 ہزار سے زیادہ ارکان ہیں۔ زیادہ تر قطر میں اور سعودی عرب کے مشرق اور جنوب میں رہتے ہیں۔ الغفران قبیلہ کئی شاخوں پر مشتمل ہے جس میں آل بحیح ،آل فواہدہ ، آل جابر آل زیدان شامل ہیں۔
الغفران قبیلے کے کئی ممبران کے مطابق قطری حکام کے مظالم کا تعلق 25 جون 1995 کے واقعہ سے ہے، جب شیخ حمد نے اپنے والد کو بغاوت میں معزول کردیا تھا۔ قطری عوام اقتدار پر قبضے کی ٹی وی خبروں پر حیران ہوگئے۔ یہ سب اس وقت ہوا جب شیخ خلیفہ بیرون ملک دورے پر تھے۔

 شیخ خلیفہ واپس نہیں آسکے کیونکہ ان کے طیارے کو فرانس میں روک لیا گیا۔ فوٹوعرب نیوز

قطری حکام نے اس واقعہ کے سات ماہ بعد اعلان کیا کہ شیخ حمد کے خلاف ان والد کے زیرقیادت جوابی بغاوت ناکام بنادی گئی معزول امیر نے قطر واپس آنے کی کوشش کی تھی۔ بعد ازاں انٹر پول کے ذر یعے شیخ خلیفہ کے خلاف گرفتاری کا وارنٹ جاری کرائے گئے۔
 1996 میں ہونے والی ناکام بغاوت کے بعد شہریت سے محروم ہونے والوں میںالغفران قبیلے کے رکن اور سابق قطری پولیس افسر راشد العمر بھی شامل ہیں۔
 راشد العمر نے عرب نیوز کو بتایا’ہم میں سے کچھ کو یقین نہیں آیا کہ کیا ہوا ہے۔ خاص طور پر بیٹے نے اپنے والد کے خلاف بغاوت کی ۔
انہوں نے کہا کہ’ کئی شہریوں اور آل ثانی خاندان کے متعدد افراد نے امیر قطر کی حیثیت سے نئے شیخ سے بیعت کی ہے‘۔
’شیخ خلیفہ کی طرف سے یہ سننے میں آیا اور بیانات تھے کہ وہ قطر واپس آجائیں گے ۔ لوگ الجھن میں تھے کیا وہ شیخ حمد کی حمایت کریں یا اپنے سابق اورجائز حکمران کے ساتھ کھڑے ہوں؟ بہت سے قطریوں نے اس بغاوت کے خلاف احتجاج کیا اور اصرار کیا کہ شیخ خلیفہ ہی قطر کے جائز حکمران ہیں۔
الغفران قبیلے کے ایک اور ممبر جابر الکملہ نے عرب نیوز کو بتایا ’میں 23 سال کا تھا جب میری شہریت منسوخ کی گئی ۔ ولی عہد شیخ حمد کے خصوصی محافظ کی حیثیت سے کام کررہا تھا‘۔

ناکام بغاوت پر مجموعی طور پر121 افراد پر فرد جرم عائد ہوا اور 1997 سے 2001 کے دوران ان کا ٹرائل ہوا۔ فوٹوعرب نیوز

جابر الکحلہ کا کہنا تھا کہ’ نام نہاد بغاوت کی رات مجھے فوجی اور قومی فرائض کی انجام دہی کے لئے طلب کیا گیا۔ کچھ دن بعد ٹینک یونٹ کے کمانڈر ہزارع بن خلیل جو اب گارڈ کمانڈر ہیں نے مجھے بلایا اور پوچھاکیا آپ کا تعلق الغفران قبیلے سے ہے؟’ میں نے اثبات میں جواب دیا۔ یونٹ کمانڈر نے اسی یونٹ کے کچھ نام درج کیے جو میرے رشتہ دار تھے اور مجھ سے پوچھا کہ کیا وہ بھی قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں؟ میں نے پھر اثبات میں جواب دیا۔ اس کے بعد ہمیں مزید احکامات تک کام سے روک دیا گیا تھا‘۔
جابر الکحلہ نے عرب نیوز کو مزید بتایا بہت سے لوگ الجھن کا شکار تھے قطری باشندے نئے امیر شیخ حمد کے اقتدار میں رہ رہے تھے اور میں قطری پولیس کا ایک افسر تھا۔
14 فروری، 1996 کو سابق امیر قطرشیخ خلیفہ نے اپنے کئی قریبی رشتے داروں اور حامیوں کو بتایا تھا کہ انہوں نے دوحہ کے ملٹری ائیرپورٹ کے راستے قطر واپس جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ معزول امیر نے پنے حامیوں سے کہا تھاکہ وہ ملٹری ائیرپورٹ پر ان کا استقبال کریں۔
’ہر کوئی قطر کے جائز حکمران کی واپسی چاہتا تھا لیکن قطر ی جس میں شیخ خلیفہ کے بیٹے جس میں شیخ جاسم بن خلیفہ ، اس وقت کے چیف آف اسٹاف شیخ مبارک بن عبدالرحمان اور الغفران سمیت کئی قطری قبائل شامل تھے نہیں جانتے تھے کہ شیخ حمد کا کیا رد عمل ہوگا‘۔
انہوں نے بتایا کہ شیخ خلیفہ واپس نہیں آسکے کیونکہ ان کے طیارے کو فرانس میں اڑنے سے روک دیا گیا تھا۔
راشد العمر نے بتایاکہ اس وقت، میں عید کی چھٹیوں اور رشتہ داروں سے ملنے کے لئے سعودی عرب گیا تھا۔
ناکام بغاوت کے بعد قطری حکام نے شیخ خلیفہ کے حامیوں کی تلاش اور ان کے خلاف تحقیقات شروع کی ان میں سے بڑی تعداد الغفران، الکعبی، السویدی، بنی حجر، العبداللہ، المہننادی، الکواری اور الثانوی قبائل سے تعلق رکھنے والے قبائلیوں اور معززین کی تھی۔ 

قطر کا الزام ہے کہ الغفران قبیلے کے افراد دہری شہریت رکھتے ہیں۔ فوٹوعرب نیوز

الغفران قبیلے کے متعدد افراد جو سیکیورٹی یا مسلح افواج میں تھے انہیں بریگیئر سمیت گرفتار یا قید کردیا گیا تھا۔ 
 ان میں بریگیڈیئر بخیت مرزوق العبد اللہ شامل ہیں جن پر مبینہ طور پر نام نہاد بغاوت کے رہنما ہونے کا الزام تھا ۔
’ہم جانتے تھے کہ الغفران قبیلے کے تمام ممبروں کو قطر واپس جانے کی کوشش پر گرفتار کرنے اور قید کرنے کے احکامات ہیں۔ میں اپنے اور اہل خانہ کے لیے خوفزدہ تھا ۔فیصلہ کیا کہ جب تک تمام چیزیں صاف نہ ہوجائیں تب تک واپس نہ جاﺅں‘۔
انہوں نے مزید کہاکہ ’ہمیں یہ بھی معلوم تھا کہ قطر سے باہر کوئی بھی قطری جو خوف کے باعث اپنے ملک واپس نہیں آسکتا ہے وہ ابو ظبی میں شیخ خلیفہ کے پاس جاسکتا ہے‘ ۔
قطری حکام نے بغاوت کی ناکام بغاوت پر مجموعی طور پر121 افراد سے فرد جرم عائد کی۔ نومبر 1997 اور مئی 2001 کے دوران ٹرائل ہوا۔
پراسیکیوٹر جنرل کے دفتر نے جو الزامات لگائے ان میں امیرقطر کو طاقت کے ذریعے معزول کرنے کی کوشش ،ریاست کے خلاف ہتھیار رکھنا،فوجی رازوں کا افشا اور دوسرے ملکوں کے ساتھ تعاون اور سازش شامل ہیں۔
سماعت کے بعد 19 مبینہ ملزمان کو سزائے موت اور 20 کو عمر قید کی سزا سنائی گئی جبکہ 28 کو بری کردیا گیا۔ سزائے موت پانے والوں میں سے کسی کو پھانسی نہیں دی گئی۔
الغفران قبیلے کے ایک اور رکن صالح جابر الحمران نے کہا کہ’ میں نے شیخ خلیفہ کے گارڈ یونٹ میں محافظ کی حیثیت سے کام کیا تھا بعد ازاں مجھے ایک ماہ نظربند رکھا گیا‘۔
’حراست ختم ہونے کے بعد اپنی بیمار ماں سے ملنا چاہتا تھا۔ جس دن میں باہر نکلا نام نہاد بغاوت ہوئی اور مجھ پر اس میں حصہ لینے کا الزام لگایا گیا۔ میرا نام بغیر کسی جرم کے چیک پوائنٹس پر ڈال دیا گیا کیونکہ مجھے نہیں معلوم تھا کہ میرے کام کی جگہ کے باہر کیا ہورہا ہے‘۔
جابر الکحلہ نے کہا ’جو چیز ہمیں اب بھی سب سے زیادہ الجھن میں ڈالتی ہے یہ ہے کہ قطری حکومت اب بھی ہماری شہریت منسوخ کرنے کے پیچھے وجوہ بتانے سے انکار کر رہی ہے ، اگرچہ اس طرح کے فیصلے کا جواز بتانا ان کا فرض ہے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ 1996 سے لے کر 2019 تک قطری حکومت ہماری شہریت منسوخ کرنے کے پیچھے حقیقی وجوہ بیان کرنے میں ناکام رہی۔ صرف یہی جواب دیا گیا تھا کہ الغفران قبیلے کے افراد دہری شہریت رکھتے ہیں۔
اصل وجہ یہ ہے کہ ہم پر بغاوت میں حصہ لینے کا الزام ہے۔
’کچھ ملزمان کو کئی سال بعد رہا کیا گیا تھا ، لیکن حکومت کی جانب سے کسی الزام کے بغیر6 ہزار بے گناہ لوگوں کو نشانہ بنایا گیا تھا‘۔
2010 میں سعودی عرب کے شاہ عبد اللہ نے مداخلت کرتے ہوئے 21 الغفران قبیلے کے افراد کو جیل سے رہا کروایا اور شہزادہ متعب کو ان کی بحفاطت رہائی کے لئے بھیجا تھا۔
واٹس ایپ پر سعودی عرب کی خبروں کے لیے ”اردو نیوز“ گروپ جوائن کریں

شیئر: