Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

خود نمائی، شستر پوجا اور رفال

پہلے کسی وزیر نے جنگی طیارے کا ایسا سواگت نہیں کیا جیسا کہ وزیرِ دفاع راج ناتھ سنگھ نے کیا۔ فوٹو: اے ایف پی
جیسے بچوں کو نئے نئے کپڑے، جوتے یا  کھلونے بڑوں کو دکھا کر شاباش و تعریف وصولنے کا شوق ہوتا ہے۔
اسی طرح نوعمری میں دوسروں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے بالوں کا سٹائل بدلنے کی عادت یا لمبے بالوں کو بار بار ماتھے پر جھٹکنا، بات بات پر ہاتھ نچا کر نئی رولیکس نمایاں کرنا یا نئی ٹائی سے کھیلنا یا نیا جوتا دکھانے کے لیے ٹانگ پے ٹانگ رکھ کے بیٹھنا، یا کالا چشمہ خریدا ہے تو اس پر سے کئی دن تک سٹیکر لگائے رکھنا  یا ٹرانزسٹر ریڈیو خریدا ہے تو اسے گوٹہ کناری والا لباس پہنا  کر ٹرانزسٹر کو ہاتھ اور بازو کے درمیان فٹ کر کے فخریہ گھر سے باہر نکلنا یا نئی پتلون سلوائی ہے تو اس کی اگلی جیبوں میں ہاتھ گھسا کے چلنا۔ ہم میں سے ہر کسی نے  بچپنے یا اوائل عمری میں خود نمائی کی خاطر ان میں سے کوئی نہ کوئی حرکت ضرور کی ہے (میں مروتاً خودنمائی کہہ رہا ہوں۔ کچھ نک چڑھے بڈھے تو اسے شہدہ پن بھی کہتے ہیں)۔
مگر فی زمانہ یہ خود نمائی واقعی اپ گریڈ ہو کر شہدے پن کی حدود میں داخل ہو چکی ہے۔ میں نے ایک شہر کی شاہی روڈ پر ایک بڑا سا بینر دیکھا  ’ہم محترم عبدالحمید صاحب کو نئی پراڈو خریدنے پر تہہ دل سے مبارک باد دیتے ہیں۔ منجانب انجمنِ دوکانداران شاہی روڈ‘۔
میں نے ایک قصبے میں یہ بینر پھڑپھڑاتا دیکھا ’ندیم کمال صاحب کو بطور ایس ایس پی تعیناتی پر شہریانِ فنٹوش پورہ کی طرف سے دل کی گہرائیوں سے خوش آمدید کہتے ہیں۔ منجانب کت خانہ ویلفیئر ایسوسی ایشن‘۔ یا پھر ’ہم اپنے محبوبِ رکنِ صوبائی اسمبلی عزت مآب چٹیل شاہ صاحب کو عمرے کی سعادت حاصل کرنے پر پرخلوص مبارک باد دیتے ہیں۔ منجانب سپوٹران ِ چٹیل شاہ‘۔

یہ رسم بھارت میں سول و عسکری سطح  پر برسوں سے جاری ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

خود نمائی صرف فرد نہیں حکمران اور ریاست کی بھی عادت ہے۔ مثلاً مطلق العنان حکمران جگہ جگہ اپنے مجسمے اور ساٹھ ساٹھ فٹ اونچی تصاویر آویزاں کرواتے ہیں۔ جیسے شمالی کوریا، وسطی ایشیائی ریاستیں، صدام حسین کا عراق، حافظ الاسد یا بشار الاسد کا شام یا ناصر سے لے کے اب تک  کا مصر وغیرہ وغیرہ۔ مجھے ایسے مناظر دیکھ کر نہ صرف شدید گھٹن کا احساس ہوتا تھا بلکہ بار بار یہ شعر بھی یاد آتا  
ہر موڑ پے وا ہیں میری آنکھوں کے دریچے
اب دیکھنا یہ ہے کہ تو جاتا ہے کہاں سے (جاوید صبا)
سب جانتے ہیں کہ پاکستان ایک جوہری طاقت ہے ۔ مگر عام پاکستانی کو بار بار یاد دلانے کے لیے شروع شروع میں ہر بڑے شہر  کے اہم چوک میں یا تو چاغی پہاڑ  کا مجسمہ نصب کیا گیا یا پھر میزائل چوک بنا دیا گیا۔ اب بہت کم جگہوں پر یہ عسکریانہ نشانیاں رہ گئی ہیں۔
پچھلے پورے ہفتے دسہرہ  منایا گیا۔ اس موقع پر ایک مخصوص دن آلات و ہتھیاروں کی پوجا بھی کی جاتی ہے تاکہ ان آلات سے زندگی میں جو آرام یا احساسِ تحفظ پیدا ہوتا ہے اس پر  دیوی دیوتاؤں کا شکر ادا کیا جا سکے۔ یہ رسم بھارت میں سول و عسکری سطح  پر برسوں سے جاری ہے۔ مگر اس سال اس رسم کو بھی سیاستیا لیا گیا۔

خود نمائی صرف فرد نہیں حکمران اور ریاست کی بھی عادت ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

میں نے پہلی بار دیکھا کہ شری نریندر مودی اور ان کے نظریاتی مرشد یعنی آر ایس ایس کے سرسنگھ چالک (قائد) موہن بھاگوت تلواروں اور بندوقوں کی پوجا کر رہے ہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان سے پہلے کے وزرائے اعظم یا سیاستدانوں نے یہ پوجا نہیں کی ہو گی۔ مگر ان کی تصاویر اخبارات میں خصوصی طور پر شائع نہیں ہوتی تھیں۔
میں سوچ رہا ہوں کہ نائن الیون کی بعد کی اس دنیا میں اگر کوئی عمران خان کلاشنکوفوں یا تلواروں کو پھولوں سے سجا کر سامنے رکھیں اور دعا کے لئے ہاتھ اٹھائیں۔ یا قمر جاوید باجوہ جی تھری کو گوٹا کناری باندھ کر اس سے شکرانے کے راؤنڈ فائر کرتے ہوئے تصویر کھنچوائیں تو واشنگٹن سے دلی تک ایسی تصاویر پر کیا کیا تبصرے نہ ہوں گے؟  گویا میں کروں تو سالا کیریکٹر ڈھیلا ہے۔
ریاستیں اپنے دفاع کے لیے ہر طرح کا اسلحہ خریدتی ہیں اور یہ ایک معمول کا عمل ہے۔ پاکستان نے جب انیس سو بیاسی میں امریکہ میں پہلا ایف سولہ وصول کیا تو اسے پاکستان لانے والے پائلٹوں نے نمازِ شکرانہ شاید پڑھی ہو مگر ایسا نہیں ہوا کہ انہوں نے ایف سولہ کے پر کے نیچے جائے نماز بچھا لی ہو یا اس کی چونچ پر میٹروملن اگر بتی کا گچھا اٹکا کے اسے دیا سلائی سے خوشبویایا ہو یا کاک پٹ پر مارکر سے بسم اللہ لکھ دیا ہو۔

اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان سے پہلے کے وزرائے اعظم یا سیاستدانوں نے یہ پوجا نہیں کی ہو گی۔ فوٹو: اے ایف پی

اسی طرح بھارت نے پچھلے تہتر برس میں سپٹ فائٹر، ہنٹر، مسٹئیر، ویمپائر، میراج، جیگوار اور مگ اکیس سے پینتیس تک ہر طرح کے طیارے خریدے مگر کسی وزیر نے ایسا سواگت نہیں کیا جیسا کہ وزیرِ دفاع راج ناتھ سنگھ نے فرانس میں بنفسِ نفیس سٹیٹ آف دی آرٹ پہلے رفال طیارے کی وصولی کے دوران کیا۔ انہوں نے اسے بھارت کے لیے ایک تاریخی لمحہ قرار دیتے ہوئے ٹائروں کے نیچے نیمبوں اٹکائے تاکہ بھوت بلائیں اس کے قریب نہ پھٹکیں، کاک پٹ کے آگے کی جگہ پر ناریل اور پھول رکھے اور مارکر سے طیارے پر اوم لکھ کر  ڈنڈوت کیا۔
مزید پڑھیں

 

مقصد کسی کے عقیدے کا مذاق اڑانا نہیں لیکن اگر اس کا برسرِ عام  اظہار واقعی کسی مذہب کا جزو ہے تو پھر آج سے پہلے بھارت کے کسی وزیرِ دفاع کی ایسی کوئی تصویر کیوں نہیں؟ اگر مقصد خیر و برکت کا حصول ہے تو پھر ایک بھارتی مسلمان عہدیدار بھی ہونا چاہیے تھا تاکہ وہ رفال پر کچھ پڑھ کے پھونک دیتا۔ اور ایک بھارتی پادری بھی ہوتا تاکہ وہ طیارے پر پاک پانی چھڑک دیتا اور یہ پیغام جاتا کہ رفال دراصل تمام بھارت واسیوں کے دفاع کے لیے ہے۔ لیکن صرف شستر پوجا کرنا اور وہ بھی بیرونِ ملک۔ کیا اس کا مطلب دنیا کو یہ بتانا ہے کہ رفال طیارہ بھارت سے زیادہ ہندوتوا کے رکھشکوں کی رکھشا کے لئے ہے؟
میں اپنے تبصرے میں کہیں اوور تو نہیں ہو گیا؟ ایسی صورت میں انتہائی معافی کی خواستگاری۔
کالم اور بلاگز واٹس ایپ پر حاصل کرنے کے لیے ’’اردو نیوز کالمز‘‘ گروپ جوائن کریں

شیئر:

متعلقہ خبریں