Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پشتو فلموں کا ’بدر‘ جو ہمیشہ ’مُنیر‘ رہا

پشتو فلموں کے کامیاب ترین ہیرو بننے تک کا بدر منیر کا سفر بڑاکٹھن اور دشوار گزرا تھا۔ فوٹو: فیس بک
بدرمنیر نے جب اپنی پہلی فلم کا پہلا شاٹ اوکے کروایا تو اس کے بعد وہ سیدھے مسجد پہچنے، وضو کیا اور سجدہ میں گر گئے۔
سجدہ شکر بجا لاتے ہوئے انہوں نے اس فلم ’یوسف خان شیر بانو‘، جو کہ پاکستان میں پشتو کی پہلی فلم تھی، کی کامیابی کی دعا کی۔
ان کی دعا اتنی کامیاب ہوئی کہ آنے والے برسوں میں پشتو فلموں کا وہ دورآیا، جس کے وہ مرتے دم تک شہنشاہ رہے۔
پشتو فلموں کے کامیاب ترین ہیرو بننے تک کا بدر  منیر کا سفر بڑاکٹھن اور دشوار گزرا تھا۔
یہ سفر سوات کے مدرسے سے تفریح کے لیے پشاور جانے والے ایک کم عمر نوجوان کا تھا جو ایک سینیما پر سنتوش کمار کی جہازی سائز بورڈ پر لگی تصویر دیکھنے کے بعد، اس بورڈ پر اپنا چہرہ سجانے کا خواب دیکھ بیٹھ تھا۔
یہ سپنا بننے کے اگلے ہی لمحے ان کے منہ سے بے ساختہ نکلا۔
’شیطانہ مخ دے تور شہ‘، اے شیطان تمہارا منہ کالا ہو۔
ان کا خیال تھا کہ یہ سوچ ایک گناہ ہے کہ وہ فلموں میں کام کریں۔ سو انہوں نے شیطان کے بہکانے پر خود کو باز رکھنے کے لیے بولے جانے والا پشتوکا یہ محاورہ بولا۔

بدر منیر فلمی بورڈ پر لگی تصویر دیکھنے کے بعد، اس بورڈ پر اپنا چہرہ سجانے کا خواب دیکھ بیٹھ تھا۔ فوٹو: فیس بک

مگر اس کے باوجود یہ جہازی سائز بورڈ اور اس پر اپنا چہرہ سجانے کا خواب ان کے خیال سے نہیں نکلا۔
یہ بورڈز چند روز بعد انہیں بار بار پھر پشاور کھینچ لاتے۔
پھر ایک دن انہوں نے اس سینیما کے اندر جا کر تصویروں کو حرکت کرتے، بولتے اور گاتے دیکھا تو ان کے اپنے من کے اندر کئی تار چِھڑ گئے۔
اورساتھ ہی ایک جنگ بھی، کبھی یہ سب اچھا لگتا اور کبھی ’گناہ‘۔
پالش کی پیٹی والا بدر منیر
ابھی یہ کشمکش جاری تھی کہ غمِ روزگارانہیں کراچی لے گیا۔
روشنیوں کے شہر کراچی میں اپنا تابناک مستقبل پانے سے پہلے انہوں نے ایک طویل عرصہ تاریک اندھیری راہوں میں بھٹکتے گزارا۔
ان کا کراچی کے بارے میں پہلا خواب وہاں پہنچتے ہی کرچی کرچی ہو گیا جب انہیں گزراوقات کے لیے کوئی کام نہ ملا۔
 بدر منیر زیادہ پڑھے لکھے نہیں تھے، جب کچھ نہ بنا تو انہوں نے لکڑی کی ایک چھوٹی سی پیٹی کاندھے سے لگائی اور اس میں پالش رکھ کر جوتے پالش کرنا شروع کر دئیے۔
وہ بہت عرصے تک فٹ پاتھوں کی گود میں سستاتے اور سوتے رہے۔ ان کے سرخ و سفید ہاتھ اکثر کالے رہتے۔
پھر بدر منیر نے رکشہ چلانا شروع کر دیا، اس کی ٹرٹراہٹ انہیں کسی دُھن کی مانند معلوم ہوتی، وہ کئی سالوں تک اس پر سر دھنتے اور وقت کو دھکا دیتے رہے۔
ان کی زندگی تب بدلی جب ایک دن ان کو فلم سٹوڈیو کی ایک سواری ملی۔
انہوں نے سواری کو فلم سٹوڈیو کے گیٹ پراتارا تو اندر دبی برسوں پرانی خواہش جس کو انہوں نے بڑی مشکل سے تھپکی دے کر سلا دیا تھا، نے ایک مرتبہ پھرانگڑائی لے لی۔

بدر منیر نے تقریباً 600 فلموں میں کام کیا۔ فوٹو: فیس بک

فلم نگری کی طرف قدم
وہ جب بھی سٹوڈیو کے سامنے سے گزرتے انہیں لگتا کہ اندر سے کوئی انہیں بلا رہا ہے، ایک بار اندر جانے لگے تو گیٹ پر روک دیا گیا۔
لیکن اب وقت آچکا تھا کہ ان کی قسمت کی یاوری ہوتی۔
 جس چوکیدار نے انہیں روکا، وہ پشتون تھا، اور یہ پتہ چلتے ہی انہوں نے ’پشتو کنکشن‘ لڑایا۔ چند منٹ کی ’گٹ مٹ‘ کے بعد وہ سٹوڈیو کے اندر تھے۔
بدر منیر گھنٹوں شوٹنگ دیکھتے رہے، اگلے روز پھر آئے، پھر سٹوڈیو میں ہی کریُو ممبر کے طور پر کام شروع کر دیا، وہ ٹرالی دھکیلتے، ریفلیکٹر اٹھاتے، اداکاروں کے لیے کھانے پینے کا سامان لاتے، محنت کرتے رہے، انہی کی فلم کے گانے کی مانند
’سوک دَ مستے گڈیگی، سوک دَ مجبورے گڈیگی‘
 یعنی ’کوئی مستی سے ناچتا ہے اور کوئی مجبوری سے،۔
وحید مراد کی نظر التفات
وہ دور چاکلیٹی ہیرو کا دور تھا، ایک فلم میں کسی انگریز کا کردار تھا جس کا ہیرو سے سامنا ہونا تھا لیکن ڈائیلاگ کوئی نہیں تھا۔ نوجوان بدربھی کسی گورے سے کم نہ تھے، وحید مراد ان کو سیٹ پر دیکھتے رہتے تھے۔ انہوں نے اس روز ان کو غور سے دیکھا اور کہا ’میاں میک اپ کرو، آج تم سے نیا کام لیتے ہیں‘۔
پہلے ہی شاٹ میں بدر منیر نے اس قدر خوبصورت تاثرات دئیے کہ وحید مراد کو بھا گئے۔

پہلے ہی شاٹ میں بدر منیر نے اس قدر خوبصورت تاثرات دئیے کہ وحید مراد کو بھا گئے. فوٹو: وحید مراد ڈاٹ کام

وہ انہیں اپنے ساتھ گھر لے جاتے، اپنی گاڑی چلواتے اور چھوٹے موٹے کام کرواتے۔ پھر انہوں نے بدر منیر کو اپنے دفتر کی دیکھ بھال کے لیے رکھ لیا، وہ ان کی طبعیت میں انکساری سے بہت متاثرتھے۔
’یوسف خان شیر بانو‘
ان کے قریبی دوست نذیر جو کیمرہ مین تھے، نے ان کو ایک دن رازداری سے بتایا کہ ایک پارٹی پشتو فلم بنانا چاہتی ہے۔ وحید مراد کے کہنے پر ڈائریکٹرعزیز تبسم نے بدرمنیر کا جائزہ لیا اور اعلان کر دیا کہ ’میری فلم کے یہی ہیرو ہوں گے‘۔
اس شام بدرمنیر نے دوستوں کو کڑاہی پارٹی دی اور پشتو ٹپے (کلاسیکی لوک شاعری) بھی سنائے۔
یوسف خان شیربانو پشتون سرزمین کی ایک لوک اور رومانوی داستان ہے جسے لوگوں نے صرف سنا اور کتابوں میں پڑھا تھا لیکن جب انہیں جیتے جاگتے ’یوسف خان‘ اور ’شیربانو‘ نظر آئے تو شائقین نے انہیں سر آنکھوں پر بٹھا لیا۔

یوسف خان شیربانو پشتون سرزمین کی ایک لوک اور رومانوی داستان ہے. فوٹو: فیس بک

یہیں سے بدرمنیر کی فلمی زندگی کو پہلا گیئر لگا اور ٹاپ میں تب بدلا جب خود ’دلہن ایک رات کی‘ لکھی اور بنائی، یہ اردو اور پشتو دونوں زبانوں میں سپرہٹ ثابت ہوئی۔
یہ کوئی اور ہے
برسوں پہلے کالج کے دنوں میں ہم کچھ کلاس فیلوز باری سٹوڈیو کی سیر کو گئے، پتہ چلا کہ بدرمنیر صاحب وہاں آ گئے ہیں،اس کے ساتھ ہی ذہن میں ’گرینگو‘ (ان کی مشہور فلم) کی شبیہہ ذہن میں ابھری۔
بڑی مونچھیں، ہیٹ، کمانڈو کوٹ، کرخت چہرہ۔
مگر یہ کیا، ان کی گاڑی سے تو کوئی اور اترا۔
 کلین شیو، دھیما انداز، شلوار قمیص۔
تعارف کروانے پر گلے لگایا اوربولے، ’ابھی جانا مت، میں آتا ہوں‘۔
’زما انتقام’ نامی فلم کا شاٹ فلمبند کروایا اور پلٹے تو تقریباً گرینگو ہی تھے۔ آتے ہی چائے منگوائی، اس وقت ایک اخبارنویس بھی آ گئے، وہ انٹرویو دیتے رہے اور میں سنتا رہا۔
بدر منیر نے 1941 میں سوات کے علاقے مدین میں ایک امام مسجد کے ہاں آنکھ کھولی، والد نے مدرسے میں داخل کروا دیا۔ یہ ریڈیو کا دور تھا جو ان کے گھر میں تو نہیں تھا تاہم باہر کہیں گانا وغیرہ سنتے تو اچھا لگتا لیکن اظہار نہ کرتے۔
نامناسب پشتو فلموں کی مخالفت
90 کی دہائی میں ایسی پشتو فلمیں مںظرعام پر آنا شروع ہوئیں جن میں غیرشائستہ مناظراوررقص ہوتے۔ اس بارے میں بدر منیرکا کہنا تھا کہ ’اس پر ہم بھی بہت پریشان ہیں، یہ ہمارا کلچر نہیں ہے، یہ پشتو کو ہی نہیں پوری انڈسٹری کو نقصان پہنچا رہے ہیں، ان کا استدلال تھا کہ یہ مناظر بعد میں شامل کیے جاتے ہیں، ہیرو ہیروئن کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔‘
انہوں نے احتجاج کرتے ہوئے کچھ ڈائریکٹرز کے ساتھ اسی وجہ سے کام کرنا بھی چھوڑا۔

’زما پاگل جانانہ‘ ان کی آخری فلم تھی جو 2005 میں ریلیز ہوئی۔ فوٹو: فیس بک

گرو کی مدد
سٹار بننے کے بعد بھی وہ وحید مراد کا بہت احترام کرتے۔ جب 1980 کے اوائل میں وحید مراد پر برا وقت آیا، بیماری اور ایکسیڈنٹ کی وجہ سے وہ انڈسٹری سے تقریباً باہر ہوگئے تو بدرمنیر نے انہیں دھارے میں واپس لانے کے لیے اپنے خرچ سے ایک پشتو فلم بنائی جس سے وہ تو فلمی دنیا میں واپس نہ آ سکے لیکن بدرمنیر نے ان کے احسان کا بدلہ ضرور ادا کر دیا، جو انہوں نے ان کو فلموں میں لا کر کیا تھا۔
وہ وحید مراد کی وفات پر بہت آزردہ تھے۔
2003-04 میں پشتو فلموں میں نئے لوگ آنے سے انہیں کام ملنا کم ہوگیا جس کا انہوں نے کبھی شکوہ نہیں کیا۔
’زما پاگل جانانہ‘ ان کی آخری فلم تھی جو 2005 میں ریلیز ہوئی۔
بدر منیر نے تقریباً 600 فلموں میں کام کیا، اردو، پنجابی کی چالیس فلموں میں بھی کردار نبھائے۔
وہ 2008 میں آج ہی کے روزدل سے ہار گئے، اور دنیا سے کوچ کر گئے۔
ان کے بیٹے دلبرمنیر بھی پشتو فلموں کے معروف اداکار ہیں۔
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ میں شامل ہوں

شیئر:

متعلقہ خبریں