Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’غیر آئینی اقدام ہوا تو مارچ کا رخ اس طرف موڑ دیں گے‘

جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ ’ان کے مارچ کا مقصد عوام کے حق حکمرانی کو بحال کروانا ہے اور اگر مارچ کے نتیجے میں کوئی غیر آئینی اقدام ہوا تو مارچ کا رخ اس طرف پھیر دیں گے۔‘
اسلام آباد میں اپنی رہائش گاہ پر اردو نیوز کے ساتھ بات کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ ’ان کی جماعت نے ہمیشہ مارشل لا کی مخالفت کی ہے۔‘
اس سوال پر کہ ان کے مارچ کے نتیجے میں اگر مارشل لا لگ گیا تو وہ کیا کریں گے؟
ان کا کہنا تھا ’ہم آزادی مارچ کا رخ اس طرف پھیر دیں گے، ہمیں تو ملک میں آزادی حاصل کرنی ہے۔ ہماری تو مارشل لا سے لڑتے لڑتے عمر گزری ہے۔اس وقت جو عوام کی بیداری ہے اس کو ہم نے مرنے نہیں دینا۔‘

مولانا فضل الرحمان کا کہنا ہے کہ ’حکومت کی طرف سے طاقت کے استعمال کے باوجود ان کا احتجاج نہیں رکے گا‘

انہوں نے کہا کہ ’پاکستان میں اکثر ایسا ہوا ہے کہ قانونی حکومت کوئی اور ہوتی ہے اور حقیقت میں حکومت کوئی اور ہوتی ہے، تاہم ان کی جماعت نے ہمیشہ مارشل لا کی مخالفت کی ہے چاہے وہ ضیا کا دور ہو یا پرویز مشرف کا۔‘
جمعیت علمائے اسلام ف کے سربراہ نے کہا کہ ’حکومت کے خلاف ان کا آزادی مارچ پی ٹی آئی کے 126 دن کے دھرنے سے بالکل مختلف ہو گا کیونکہ اس میں لاک ڈاؤن نہیں ہو گا  بلکہ ایک تحریک ہو گی جس کی انہوں نے ایک سال سے مشق کر رکھی ہے۔‘
مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ ’حکومت کی طرف سے طاقت کے استعمال کے باوجود ان کا احتجاج نہیں رکے گا۔‘
’طاقت کا استعمال ہم نے کبھی مانا نہیں ہے ہم جمہوری لوگ ہیں۔ آئین کے تحت احتجاج کر رہے ہیں اور عدالت بھی ہمیں سپورٹ کر رہی ہے کہ ان کو احتجاج حق حاصل ہے پھر طاقت کے استعمال کی کیا ضرورت ہے اور ہم مکمل طور پر (پرامن رہنے کا) اطمینان دلا چکے ہیں اور دلاتے رہے ہیں۔‘

مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ’ہمارے احتجاج کے مختلف مرحلے ہیں،126 دن کے دھرنے کی پیروی نہیں کریں گے

 ’ہاں یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے بعض لوگ کچھ لوگوں کو ٹریننگ کروا رہے ہیں اور  انہیں کراٹے سکھا رہے ہیں، ڈنڈے اٹھوا رہے ہیں تو بدامنی کا خطرہ ان کی طرف سے ہے ہماری طرف سے نہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ہمارے احتجاج کے مختلف مرحلے ہیں، وہ ہم ابھی نہیں بتا رہے لیکن یہ 126 دن کے دھرنے کی پیروی نہیں ہو گی۔‘
’ہم اپنی تحریک کو ایک تسلسل دیں گے۔ پہلے مرحلے میں کوشش کریں گے کہ مقاصد حاصل ہوں ورنہ دوسرے مرحلے میں یا تیسرے مرحلے میں حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔ یہ بات آپ کو بتا دوں کہ جتنے آگے کے مرحلے ہیں وہ بہرحال اسلام آباد کے دھرنے سے سخت ہوں گے۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ سخت سے ان کی کیا مراد ہے؟ تو ان کا کہنا تھا کہ ’سخت سے مراد مار کٹائی نہیں ہے بلکہ ایسے اقدامات ہیں جو اس حکومت کو بات ماننے پر مجبور کریں گے اور اسے استعفیٰ دینا پڑے گا۔‘

 

اس سے قبل غیر ملکی میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ ’ان کا ہدف اسلام آباد میں 15 لاکھ لوگوں کو لانا ہے تاہم حکومت اپنی تمام تر رکاوٹوں سے صرف پانچ لاکھ لوگوں کو ہی روک پائے گی اور 10 لاکھ لوگ پھر بھی اسلام آباد پہنچ جائیں گے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’آزادی مارچ کا بنیادی مطالبہ ہے کہ جن لوگوں کو حق حکمرانی حاصل نہیں وہ فوراً مستعفی ہوں اور عوام کو ان کا حق حکمرانی واپس کریں۔‘
جے یو آئی کے سربراہ نے کہا کہ ’ایک طرف حکومت مذاکرات کے لیے کمیٹی بناتی ہے اور دوسری طرف وزیراعظم عمران خان سمیت سب حکومتی رہنما تضحیک آمیز الفاظ بھی استعمال کرتے ہیں، ایسے ماحول میں مذاکرات نہیں ہو سکتے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’27 اکتوبر کو ان کا مارچ شروع ہو گا اور وہ 31 اکتوبر کو اسلام آباد میں داخل ہوں گے۔‘

مولانا فضل الرحمان کا کہنا ہے کہ انصارالاسلام پہلے دن سے ان کی جماعت کا حصہ ہے، فوٹو: سوشل میڈیا

مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ انہوں نے موجودہ حکومت کو پہلے دن سے ہی دھاندلی کی پیداوار قرار دیا تھا اور تمام اپوزیشن کی طرف سے متفقہ مطالبے کے بعد حکومت نے دھاندلی کی تحقیقات کے لیے کمیٹی تو بنائی مگر آج تک اس کا کوئی اجلاس ہوا نہ ہی اس کے قواعد و ضوابط بن سکے۔‘
حکومت کی جانب سے احتجاج روکنے کے اقدامات کو ’انہوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کی توہین قرار دیا۔‘
 ان کا کہنا تھا کہ ’حکومت بسوں کو روک رہی ہے کہ احتجاج کرنے والوں کو نہ بٹھائے، دکان داروں کو لین دین سے منع کر رہی ہے حتیٰ کے کھانے پینے کی اشیا کو بھی روک رہی ہے، کیا یہ احتجاج کے آئینی حق کو پامال نہیں کیا جا رہا؟‘

فضل الرحمان کہتے ہیں کہ انہوں نے مدارس کے طلبہ کو دھرنے میں شرکت کے لیے نہیں کہا، فوٹو: اے ایف پی

اپنی جماعت کی ذیلی تنظیم پر حکومتی پابندی پر تبصرہ کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ جب سے جمعیت بنی ہے انصار الاسلام نامی رضا کار اس کا حصہ ہیں تو کیا حکومت کو آج ہی پتا چلا ہے کہ یہ غیر قانونی ہے؟
انہوں نے کہا کہ’ریاست کون ہوتی ہے کہ وہ ان کی جماعت پر شک کرے؟ اگر وہ ریاست پر اعتماد کرتے ہیں تو ریاست کو بھی ان پر اعتماد کرنا چاہیے وہ اداروں سے تصادم نہیں چاہتے۔‘
مدارس کے طلبہ کی مارچ میں شرکت کے سوال پر جے یو آئی ف کے سربراہ نے کہا کہ ’انہوں نے کسی مدرسے کے طلبہ کو احتجاج میں نہیں بلایا اور ان کے اپنے دو مدارس کے طلبہ کو بھی غیر نصابی سرگرمیوں کی اجازت نہیں ہے۔‘

 

 تاہم انہوں نے سوال کیا کہ ’جو لوگ 18 سال کی عمر میں ووٹ ڈال سکتے ہیں کیا وہ یہ پوچھ بھی سکتے ہیں کہ ان کے ووٹ کا کیا بنا؟‘
’کیا یونیورسٹی کے طلبہ کی طرح مدارس کے بالغ طلبہ کو ملکی سیاسی معاملات میں دلچسپی نہیں ہونی چاہیے؟‘
طالبان کے ساتھ روابط کے حوالے سے سوال کے جواب میں مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ’پاکستان کی ریاست نے امریکہ روس جنگ میں مجاہدین کی حمایت کی تھی اور یہ ایک قومی فیصلہ تھا، تاہم حالیہ برسوں میں شدت پسندی کے خلاف ان کے واضح موقف کی وجہ سے خود ان پر اور ان کی جماعت کی قیادت پر درجنوں قاتلانہ حملے ہو چکے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’دھرنا مکمل طور پر پر امن ہو گا اور ان کے ملک بھر میں ہونے والے گذشتہ پرامن ملین مارچ اس بات کا ثبوت ہیں۔‘
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ میں شامل ہوں

شیئر: