Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مشرف غداری کیس: حکومتی وکلا برطرف

ماہرین کے مطابق مشرف کیس پر نئے سرے سے دلائل تیار ہوں گے۔ فوٹو اے ایف پی
وفاقی حکومت نے خصوصی عدالت میں سابق فوجی صدر جنرل (ریٹائرڈ) پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس میں پیروی کرنے والی اپنی استغاثہ ٹیم کو برطرف کر دیا ہے۔
وزارت داخلہ کی جانب سے جاری نوٹیفکیشن میں 10 رکنی استغاثہ ٹیم اور گیارہ رکنی آئینی ٹیم کی برطرفی کا اعلان کیا گیا ہے۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے آئینی ٹیم کے سربراہ ڈاکٹر طارق حسن ایڈوکیٹ نے بتایا کہ وہ آج کیس کی پیروی کے لیے عدالت آئے تو انہیں بتایا گیا کہ حکومت نے اپنی وکلا کی ٹیم کو فارغ کر دیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اس وقت تک انہیں اس کا کوئی نوٹیفکیشن بھی نہیں ملا تھا۔
یاد رہے کہ سابق حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ نواز نے پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کا مقدمہ درج کیا تھا۔ یہ مقدمہ  پرویز مشرف پر آرمی چیف کی حیثیت سے تین نومبر 2007 کو ملک کا آئین معطل کر کے ایمرجنسی لگانے کے اقدام پر درج کیا گیا تھا۔
استغاثہ کی ٹیم گزشتہ چھ سال سے اس کیس پر کام کررہی تھی۔

نومبر 2007 میں ایمرجنسی نافذ کرنے پر لوگ لاہور میں پرویز مشرف کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی

ڈاکٹر طارق حسن نے بتایا کہ انہوں نے کیس پر اپنے دلائل مکمل کر کے آج جمع کروانے تھے جس کے مطابق جنرل مشرف آئین توڑنے اور سنگین غداری کے جرائم کے مرتکب ہوئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا ’ہم خوش ہیں کہ ہم نے آئین کے لیے، اس ملک کے لوگوں کے لیے آخر تک فائیٹ کی۔‘
تاہم ان کا کہنا تھا کہ ایک کلائنٹ کی مرضی ہے کہ وہ جسے چاہے وکیل کرے۔
ماہرین کے مطابق اب وزارت قانون یا اٹارنی جنرل آفس استغاثہ کی نئی ٹیم تشکیل دیں گے جو کیس پر نئے سرے سے دلائل تیار کریں گے۔ یاد رہے کی موجودہ وزیرقانون فروغ نسیم اور اٹارنی جنرل کیپٹن (ریٹائرڈ) انور منصور خان دونوں جنرل مشرف کے وکیل رہ چکے ہیں۔

استغاثہ کی ٹیم گزشتہ چھ سال سے اس کیس پر کام کررہی تھی۔ فوٹو اے ایف پی

اس پیش رفت پر جب اردو نیوز نے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر امان اللہ کنرانی سے پوچھا کہ کیا یہ حکومت کی جانب سے جنرل مشرف کو ریلیف دینے کی کوشش ہے تو ان کا کہنا تھا کہ اصولی بات ہے کہ وکیل اور کلائنٹ کے درمیان تعلق میں تیسری پارٹی کو دخل دینے کا اختیار نہیں ہے۔
سال 2014 میں جنرل مشرف پر فرد جرم عائد کی گئی تھی۔ مئی 2016 میں عدالت نے جنرل مشرف کو مفرور قرار دے کر وفاقی تحقیقاتی ادارے، ایف آئی اے، کو انھیں 12 جولائی 2016 کو عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔ جنرل مشرف نے کہا تھا کہ وہ فوج کی حفاظت اور اس یقین دہانی کے ساتھ عدالت میں پیش ہونے کو تیار ہیں کہ انھیں دبئی واپس جانے دیا جائے گا۔
اس سال جون میں خصوصی عدالت نے مشرف کے مسلسل غیر حاضر رہنے پر ان کا دفاع کا حق ختم کیا تھا۔ پرویز مشرف گزشتہ تین سال سے دبئی میں رہ رہے ہیں۔
 اگر مشرف پر بغاوت کا الزام ثابت ہو جائے تو انھیں پھانسی یا عمر قید کی سزا ہو سکتی ہے۔
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ میں شامل ہوں

شیئر: