Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’کیار طوفان‘، ساحلی علاقوں میں پانی داخل

ماہرین کے مطابق ’کیار‘ کے اثرات دو نومبر تک رہیں گے۔ فائل فوٹو اے پی
سمندری طوفان ’کیار ‘کے باعث پاکستان کے بعض ساحلی علاقوں میں بلند لہروں کے باعث پانی آبادی میں داخل ہوگیا ہے۔
بلوچستان کے ضلع لسبیلہ اور گوادر کے ساحلی علاقوں میں مکانات، نمک بنانے کے مراکز اور ساحل پر کھڑی کشتیوں کو نقصان پہنچا ہے۔ محکمہ موسمیات کے حکام کا کہنا ہے کہ اس سمندری طوفان سے لہروں کی شدت میں اضافے کے ساتھ ساتھ تیز ہوائیں چلنے کا امکان ہے مگر کوئی خطرہ نہیں ۔
کراچی سے اردونیوز کے نامہ نگار توصیف رضی کے مطابق کراچی میں قائم طوفان کی اطلاع دینے والے مرکز نے بتایا ہے کہ بحیرہ عرب کے مشرقی وسط میں بننے والا سمندری طوفان کا رخ عمان کی طرف ہے ۔ اس کا مرکز کراچی کے جنوب مغرب میں  750کلومیٹر فاصلے پر ہے جبکہ عمان کے ساحل سے اس کا فاصلہ 1160کلومیٹر رہ گیا ہے۔
محکمہ موسمیات کے ڈائریکٹر سرفراز احمد کے مطابق آئندہ چند دنوں میں یہ طوفان عمان کی طرف بڑھے گا لیکن کراچی کے ساحلوں کو اس سے خطرہ نہیں۔ ’البتہ جنوبی سندھ اور مکران کے ساحلوں پر آئندہ تین دنوں تک تیز ہوائیں چلنے اور بارش کا امکان ہے۔کراچی میں شمال مشرق سے 18 سے27کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے گرد آلود ہوائیں چل سکتی ہیں۔‘

سمندری طوفان کے باعث گوادر اور لسبیلہ کے ساحلی پٹی پر واقع علاقے زیر آب آگئے ہیں۔ فوٹو اردو نیوز

 ان کا کہنا ہے کہ طوفان کے اثرات دو نومبر تک رہیں گے۔
کراچی کے ساحلوں پر پانی کی سطح معمول کے مطابق ہے اور عوام معمول کے مطابق تفریح کےلیے آرہے ہیں تاہم محکمہ موسمیات کی جانب سے ماہی گیروں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ بدھ سے جمعہ کے دوران کھلے سمندر میں جانے سے گریز کریں۔
گوادر اور لسبیلہ میں حکام کا کہنا ہے کہ سمندری طوفان کے باعث بلوچستان کی ساحلی پٹی پر واقع علاقے زیر آب آگئے ہیں۔ لسبیلہ کے ساحلی علاقے گڈانی اور ڈام میں بلند لہریں اٹھنے کی وجہ سے سینکڑوں مکانات میں سمندر کا پانی داخل ہوا ہے۔ گوٹھ عبداللہ ڈگارزئی کا زمینی رابطہ منقطع ہے۔ گوٹھ کوگڈانی سے ملانے والا کاز وے بھی ٹوٹ گیا ہے۔
علاقے کے سینکڑوں مکینوں کو اس صورتحال میں پریشانی کا سامنا ہے۔ گڈانی بازار کے دکانوں اور ڈام میں ذکری برادری کی دو عبادت گاہوں میں پانی جمع ہوا ہے۔کنڈ ملیر میں سمندری لہریں مکران کوسٹل ہائی وے تک آگئیں جس کی وجہ سے سڑک زیر آب آگئی ہے۔ تاہم آمدروفت بحال ہے۔
گڈانی کے ساحل پر مچھیروں شیر گل اور محمد آصف نے بتایا کہ انہیں انتظامیہ کی جانب سے کھلے سمندر میں جانے سے متعلق کوئی پیشگی ہدایت نہیں کی گئی ہے ۔ مچھیروں نے خود صورتحال کو دیکھتے ہوئے بڑی کشتیاں ساحل پر کھڑی کردی ہیں اور چھوٹی کشتیاں سمندر سے نکال لی ہیں۔
 

حکام کے مطابق گوادر میں آٹھ سے 10 ہزار ماہی گیر بخیریت اپنے گھروں کو پہنچ چکے ہیں۔ فوٹو اردو نیوز

گوادر کے بعض ساحلی علاقوں پر بھی واقع نشیبی علاقے سمندری طوفان سے متاثر ہوئے ہیں تاہم حکام کا کہنا ہے کہ صورتحال قابو میں ہے ۔
پیر کی صبح پسنی کے وارڈ نمبر سات ، کلمت ، اورماڑہ، سربندر، اور گنز کی ساحلی پٹی سے بلند لہریں ٹکرانے کے بعد پانی آبادیوں میں داخل ہوگیا جس سے لوگ خوفزدہ ہوگئے تاہم چند گھنٹے بعد صورتحال سنبھل گئی۔ پسنی میں دس سے زائد نمک بنانے کے لیے قائم کیے گئے تالابوں کو نقصان پہنچا ہے۔ ضلع میں اتوار کی رات سے تیز اور گرد آلود ہوائیں چل رہی ہیں۔
سمندری لہریں تیز ہونے کے بعد گوادر میں پاک بحریہ ، میرین فورس اور گوادر پورٹ اتھارٹی کی مدد سے ماہی گیروں نے نقصان سے بچنے کے لیے اپنی سینکڑوں چھوٹی کشتیاں سمندرسے نکال دیا ہے۔ بڑی کشتیوں کو بھی مغربی ساحل پر منتقل کیا جارہا ہے جہاں لہروں کا دباﺅ کم ہوتا ہے۔ محکمہ ماہی گیری کے مطابق ضلع بھر میں آٹھ سے دس ہزار ماہی گیر کام کرتے ہیں جو بخیریت اپنے گھروں کو پہنچ چکے ہیں ۔ کسی ماہی گیر کی گہرے سمندر میں موجودگی کی اطلاع نہیں ۔

اسسٹنٹ کمشنر پسنی کے مطابق لہروں سے پسنی اور اورماڑہ کے نشیبی علاقوں میں نقصان ہوا ہے۔ فوٹو اردو نیوز

اسسٹنٹ کمشنر پسنی جمیل رند کے مطابق لہروں سے پسنی اور اورماڑہ کے نشیبی علاقوں میں کچھ نقصان تو ہوا ہے تاہم کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں ۔ لیویز، پولیس، محکمہ ماہی گیری، کوسٹ گارڈز اور پاک بحریہ کی ٹیمیں الرٹ ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ضلعی انتظامیہ نے ساحل پر رات کے اوقات میں بھی ٹیمیں تعینات کی ہیں تاکہ کسی ناگہانی صورتحال سے فوری طور پر نمٹا جاسکے۔
گوادر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے ڈپٹی ڈائریکٹر برائے ماحولیات رحیم بلوچ نے اردو نیوز کو بتایا کہ کیار نامی اس طوفان کا رخ عمان کی طرف ہے اور اس سے پاکستان کے ساحلی علاقوں کو بڑا خطرہ نہیں۔ بیس سے تیس کلومیٹر کی رفتار سے گرد آلودہوائیں چلیں گی جو معمول کی بات ہے۔ 
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ میں شامل ہوں

شیئر:

متعلقہ خبریں