Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اپنی باری کا انتظار کریں

ملک میں امیر اور غریب کے لیے انصاف کے الگ الگ نظام اور پیمانے ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی
تو پھر یہ طے ہوا کے 13 سالہ اریبہ کو کسی نے قتل نہیں کیا! اس کے جسم میں دھنسی گولیاں تخیلاتی ہیں۔ اس کے والد خلیل اور ماں نبیلہ کی چھلنی لاشیں نظر کا دھوکہ ہیں کیوں کہ سانحہ ساہیوال میں ملوث اہلکارشک‘ کی بنیاد پر’باعزت‘ بری ہوگئے۔
  سڑک کنارے والدین کی لاشوں کے سامنے سکتے میں کھڑے منیبہ، عمیر اور حدیبہ کو بھی کسی سے کوئی شکایت نہیں۔ کیا ہوا اگر ان کی وہ ویڈیو جو پورے پاکستان نے ٹی وی اسکرینز پر دیکھ لیں، وہ ان عینی شاہدین کو  نظر نہ آئی جنہوں نے عدالت میں گواہی دی۔ ہو ہی جاتا ہے!
خلیل کا بھائی جلیل جو پہلے دن سے چیخ چیخ کر گولیاں چلانے والوں کا نام تمام ٹی وی ٹاک شوز پر بتا رہا تھا وہ بھی انسداد دہشت گردی عدالت کے فیصلے پر مطمئن ہے۔  
سچ تو یہ ہے کہ اس ملک میں انصاف کا ایک متوازی نظام چل رہا ہے۔ جس کا پیمانہ عام آدمی کے لیے مختلف اور ’خواص‘ کے لے کچھ اور!
جب ’خواص‘ کے پروں پر پانی پڑتا ہے تو وہ کس طرح پورے نظام کو یرغمال بنا لیتے ہیں، سانحہ ساہیوال اسی کی ایک بدصورت شکل ہے۔
اندازہ کریں ایک ایسی ’سوچ‘  جو  بظاہر عاقل و بالغ  ہے، یہ ’سوچ‘ کسی کی جان لینے سے پہلے جھجک کیوں محسوس نہیں کرتی؟
مہذب ملکوں میں یہ جھجھک  قانون کی حکمرانیاور احتساب سے آتی ہے۔ جو ہمارے ہاں ایک گھٹتا ہوا سودا ہے۔

ایسے واقعات کے خلاف ابتدا میں احتجاج اور توڑ پھوڑ کر کے خاموشی چھا جاتی ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

یہ حقیقت روز  روشن کی طرح عیاں ہے کہ ایئرپورٹ پر عوام کو گالیاں دینے سے لے کرذہنی معذور صلاح الدین پر تشدد کرنے والی اس سوچ کو یہ معلوم ہے کہ اس کا کوئی بال بھی بیکا نہیں کر سکتا۔
اسی سوچ کو، جنوری کی ایک سرد شام، اریبہ کے خاندان کا پیچھا کرتے ہوئے شاید اس بات کا مکمل یقین تو نہ ہو کہ ان کا ٹارگٹ دہشت گرد ہیں بھی یا نہیں لیکن انہیں ایک بات اچھی طرح معلوم تھی کہ اگر یہ دہشت گرد نہ بھی نکلے تو ان کو بعد میں کس نے پوچھنا ہے۔
کچھ دن شور شرابا ہوگا اور پھر خاموشی۔۔۔ طویل اور دم گھوٹتی خوفناک خاموشی جو کسی نئے طوفان کے اٹھنے کا پیش خیمہ ہے۔
مملکت خداداد میں انسانی جان کے ارزاں ہونے کا اندازہ تو خیر سے تھا ہی لیکن پنجاب کے وزیر قانون راجہ بشارت نے ان چار ہلاکتوں ’کولیٹرل ڈیمج‘ قرار دے کر عوام کو اوقات یاد دلا دی۔  کولیٹریل ڈیمیج کا مطلب گیہوں کے ساتھ گھن کا بھی پس جانا ہوتا ہے۔
موصوف وزیر اور ان کا محکمہ، اپنی وزارت کی ناک کے نیچے آٹھ ماہ ساہیوال واقعہ کی کمزور پیروی سے بے خبر رہے اور اب اس کو ناانصافی قرار دے کر گونگلوں سے مٹی جھاڑ رہے ہیں۔ یا شاید سانحہ ساہیوال کے پیچھے یہ سوچ، وزیر قانون جس قانون کے داعی ہیں اس سے بھی بالا ہی بالا کام کرتی ہے!
یہ بھی ایک حقیقت ہے پنجاب میں محکمہ انسداد دہش گردی کے اہلکاروں کے ہاتھوں مارے جانے والے افراد کی حقیقی تعداد  کیا ہے اور اس میں کتنے بے گناہ ایسے ہی ’کو لیٹرل ڈیمج‘ بن چکے ہیں کسی کو معلوم نہیں اور نہ ہی کبھی معلوم ہو پائے گا کیونکہ جرات سوال کون کرے گا؟
جب ایسے واقعات رونما ہوکر منظر عام پر خدانخواستہ آ جاتے ہیں تو یہ ہی سوچ،جرم چھپانے  کے تمام طریقے استعمال کرنے میں بھی کمال مہارت رکھتی ہے۔

مقتولین کے جنازے پڑھنے کے بعد اصل مرحلہ عدالت سے ملزمان کو سزائیں دلوانے کا ہوتا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

مارے جانے والوں کو ہی جرائم  پیشہ اور دہشت گرد قرار دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ کبھی کبھی یہ کہانی بھی بنائی جاتی ہے کہ مارے جانے والے اپنے ہی  ساتھیوں کے ہاتھوں ہلاک ہوئے جو کہ پھر پراسرار طور پر غائب بھی ہوجاتے ہیں۔ سانحہ ساہیوال میں بھی دو پراسرار موٹر سائکل سوار پیدا کر لیے گئے۔ پھر  موقف میں مزید جان ڈالنے کے لیے یہی سوچ ثبوت ضائع یا خراب کر دیتی  ہے۔ اسلحہ غائب اور گولیاں پوری ہوجاتی ہیں۔ سی سی ٹی وی  فوٹیج اور کیمرے ناکارہ، میڈیکل رپورٹ اپنی مرضی کے مطابق بن جاتی ہے۔ جائے  وقوعہ دھل کر سڑک بن جاتی ہے اور عینی شاہد نامعلوم ہوجاتے ہیں۔
سب تفتیش کرنے والے بھی اپنے ہی ہوتے ہیں، ایک بے جان اور ہومیوپیتھک سی رپورٹ دے کر جان چھڑائی جاتی ہے اور معاملہ عدالت کے سپرد ہو جاتا ہے۔
 
انویسٹی گیشن میں اصل وجہ عناد اور وجوہات کا پتہ ہی نہیں چلتا کہ کیسے دن دیہاڑے آنکھوں دیکھے بغیر سوچے سمجے ایک گاڑی پر جاتے ایک  خاندان کو بھری سڑک پر گولیوں سے سے بھون دیا جاتا ہے۔
آخری مرحلہ عدالت کا ہوتا ہے یہاں پر سارا زور لواحقین اور مرنے والے کے عزیزوں پر ہوتا ہے۔ کبھی کسی  بااثر فرد کو بیچ میں ڈالاجا تا ہے تو کبھی پیسوں کا لالچ دیا جاتا ہے اگر یہ دونوں ناکام ہو جائیں تو غریب آدمی کو ڈرانا کون سا بڑا کام ہے۔ آخرکار جب گواہی کا وقت آتا ہے تو گواہ  ملزموں کی شناخت سے انکار کرتا ہے اور عدالت  ثبوت ناکافی قرار دے کر ان کو  بری کر دیتی ہے۔ 
جب ملک میں آئین توڑنے سے لے کر نقیب اللہ کا قتل کرنے والی سوچ کو آج تک کبھی جوابدہ ہی نہیں ٹھہرایا گیا تو پھر سانحہ ساہیوال کا کیا نوحہ پڑھنا۔
عافیت اسی میں ہے کہ ہر پاکستانی اپنے آپ کو ایک چلتا پھرتا ’کولیٹرل ڈیمج‘ ہی سمجھے اور اپنی باری کا انتظار کرے !

شیئر:

متعلقہ خبریں