Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان میں تاجروں کی پھر شٹر ڈاؤن ہڑتال

تاجروں نے ٹیکس نیٹ میں لانے سے متعلق چار مطالبات حکومت کے سامنے رکھے ہیں۔ فوٹو: روئٹرز
نئے مالی سال کے بجٹ کو منظور ہوئے چار ماہ کا عرصہ بیت چکا ہے، لگ بھگ اتنے ہی عرصے سے حکومت اور تاجر برادری کے مابین اختلافات جاری ہیں جو کئی بار مذاکرات اور اعلیٰ شخصیات کی ثالثی سے بھی ختم نہیں ہوئے۔ اپنے مطالبات کی منظوری کے لیے تاجر برادری ایک بار پھر حکومت کے خلاف سراپا احتجاج ہے اور ملک میں دو روزہ شٹر ڈاؤن ہڑتال کر رہی ہے۔
مختلف شہروں کی تاجر تنظیموں اور متعلقہ نمائندوں نے 29 اور 30 اکتوبر کو ملک گیر ہڑتال کی کال دی اور ان کا دعویٰ ہے کہ پورے ملک کے تاجر اس احتجاج میں ان کے ساتھ ہیں۔ کراچی کے علاوہ لاہور، کوئٹہ، راولپنڈی اور دیگر بڑے شہروں میں بھی تاجر تنظیمیں اپنے مطالبات کے حق میں احتجاج کر رہی ہیں۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے آل کراچی تاجر اتحاد کمیٹی کے چیئرمین شارق گوپلانی کا کہنا تھا کہ وہ گزشتہ چار ماہ سے حکومت سے مذاکرات کر کے اپنے مسائل اور مطالبات کا حل نکالنا چاہ رہے ہیں مگر حکومتی اداروں کی جانب سے سنجیدگی سے اقدامات نہیں کیے جا رہے۔
شارق گوپلانی نے بتایا کہ دو روزہ ہڑتال کی کال ملک بھر کی تاجر تنظیموں نے متفقہ طور پر دی ہے اور اگر مطالبات منظور نہ کیے گئے تو ہڑتال کا دورانیہ طویل بھی ہو سکتا ہے۔

تاجروں کے مطابق حکومت مذاکرات سے مسئلہ حل کرنے میں سنجیدہ نہیں۔ 

تاجر تنظیموں کی جانب سے حکومت کے سامنے چار بنیادی مطالبات رکھے گئے ہیں جو ذیل میں ہیں:
1۔ حکومت کی جانب سے 50 ہزار سے زائد کی خرید و فروخت پر عائد شناختی کارڈ کی شرط سے کاروبار کرنے میں مشکلات پیش آ رہی ہیں، حکومت یہ پابندی ختم کرے۔
2۔ جو افراد یا کاروبار ٹیکس نیٹ میں نہیں ان کے لیے فکسڈ ٹیکس سکیم متعارف کروائی جائے۔
3۔ ٹیکس ریٹرن بھرنے کے لیے بیسیوں صفحات پر مشتمل فارم کو مختصر کیا جائے تا کہ تاجر اور کاروباری حضرات بآسانی یہ فارم پُر کر سکیں۔
4۔ حکومت تاجروں کو ودہولڈنگ ٹیکس ایجنٹ بنانا چاہتی ہے مگر تاجر برادری کو اس بات پر اعتراض ہے، وہ چاہتے ہیں کہ حکومت یہ اقدام واپس لے۔
یہ پہلا موقع نہیں کہ تاجر تنظیموں نے مطالبات حکومت کے سامنے رکھے ہوں اس سے پہلے بھی کئی بار حکومت اور تاجروں کے درمیان مذاکرات ہو چکے ہیں جو بے نتیجہ ختم ہوئے۔ وزیراعظم عمران خان نے بھی دورہ کراچی میں تاجروں سے مل کر ان کے جائز مطالبات کے حل کی یقین دہانی کروائی تھی مگر ڈیڈ لاک اب بھی قائم ہے۔

تاجروں کا مطالبہ ہے کہ حکومت 50 ہزار سے زائد کی خرید و فروخت پر عائد شناختی کارڈ کی شرط ختم کرے۔

کراچی کے مختلف علاقوں میں شٹر ڈاؤن ہڑتال کی کال پر الیکٹرانکس اشیا اور موبائل فون کی مارکیٹس مکمل طور بند ہیں۔
شہر کے کاروباری مرکز صدر میں بھی جزوی ہڑتال ہے۔ آٹو پارٹس ڈیلر ارشد سلام غوری نے اردو نیوز کو بتایا کہ ان کی مارکیٹ میں کام کا آغاز ہو گیا ہے اور دکاندار موجود ہیں۔ 
لاہور سے اردو نیوز کے نمائندے رائے شاہنواز کے مطابق  شہر میں مختلف تاجر دھڑوں کی جانب سے دوروزہ ہڑتال کی کال پر شہر کے بیشتر بڑے تجارتی مراکز بند ہیں۔ تاجر تنظیموں کے عہدیداروں نے الیکٹرانکس کی سب سے بڑی مارکیٹ ہال روڈ  پر تالہ بندی کی خود نگرانی کی۔
اس کےعلاوہ شاہ عالم مارکیٹ، اکبری منڈی، سرکلر روڈ،  لوہا مارکیٹ، رنگ محل، اردو بازار اور اچھرہ سمیت تمام چھوٹے بڑے تجارتی مراکز بھی بند ہیں۔ پاکستان ٹریڈرز الائنس کے سربراہ محمد علی میاں نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’یہ ایک کامیاب ہڑتال ہے بڑے عرصے کے بعد تاجروں نے ایک ہونے کا مظاہرہ کیا ہے، پورا لاہور بند ہے۔ کل بھی یہی صورت حال رہے گی۔
انہوں نے کہا کہ تاجروں کے مطالبات جائز ہیں اور حکومت کو تاجر کش پالیسیوں پر نظر ثانی کرنی ہو گی۔‘

تاجر برادری نے کہا ہے کہ مطالبات تسلیم نہ ہونے کی صورت میں 31 اکتوبر کو بھی ہڑتال کی جائے گی۔

کوئٹہ سے اردو نیوز کے نامہ نگار زین الدین کے مطابق بلوچستان میں بھی شٹر ڈائون ہڑتال کی جا رہی ہے جس کے باعث تجارتی و کاروباری سرگرمیاں معطل ہیں۔ مرکزی انجمن تاجران بلوچستان کی اپیل پر کوئٹہ میں جناح روڈ، سورج گنج بازار، قندھاری بازار، لیاقت بازار، پرنس روڈ، ڈبل روڈ، سرکی روڈ سمیت دیگر مرکزی علاقوں میں چھوٹی بڑی دکانیں، مارکیٹیں، بینک سمیت دیگر کاروباری، تجارتی مراکز بند ہیں۔
پشین، چمن، لورالائی، مستونگ، سبی، قلات، خضدار سمیت بلوچستان کے تیس سے زائد دیگر شہروں میں بھی تاجروں کی ہڑتال ہے۔ 
مرکزی انجمن تاجران بلوچستان کے صدر عبدالرحیم کاکڑ کا کہنا ہے  کہ سیلز انوائسز پر شناختی کارڈ نمبر اندراج کی شرط ختم کی جائے، تاجروں سے 1.5 فیصد ٹرن آئوٹ کی بجائے خالص منافع پر 0.25 فیصد ٹیکس وصول کیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ  پرچون فروشوں کے لیے فکسڈ ٹیکس نظام لایا جائے، تاجروں کو ود ہولڈنگ ایجنٹ نہ بنایا جائے، نئے اور پرانے موبائل فونز پر جائز ٹیکس لگایا جائے۔ 
انجمن تاجران کے صوبائی ترجمان اللہ داد ترین کا کہنا ہے کہ اگر مطالبات تسلیم نہ کیے گئے تو 31 اکتوبر کو بھی ہڑتال کی جائے گی۔
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ میں شامل ہوں

شیئر: