Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’ایکسٹینشن کا نوٹیفیکیشن جاری ہو چکا ہے‘

سابق وفاقی وزیر اسد عمر نے اردو نیوز کو خصوصی انٹرویو میں بتایا ہے کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کی سمری پر صدر مملکت دستخط کر چکے ہیں اور ان کی مدت ملازمت میں توسیع کا نوٹیفیکیشن جاری ہو چکا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی سے براہ راست تصدیق کر چکا ہوں۔ ’صدر مملکت دستخط کر چکے ہیں اور کافی پہلے کر چکے ہیں۔ چونکہ یہ معاملہ بار بار سامنے آ رہا تھا تو اس لیے میں صدر مملکت سے براہ راست تصدیق کر چکا ہوں۔‘
سابق وفاقی وزیر اور حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے رکن اسد عمر نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان جو حاصل کرنا چاہتے تھے وہ ان کو مل گیا ہے۔
اسد عمر نے کا کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمان کی سیاسی حکمت عملی انتہائی کامیاب رہی اور انہوں نے اپنی احتجاجی تحریک سے بہت کچھ حاصل کر لیا ہے۔ ’انہوں (مولانا فضل الرحمان) نے اپنی تقریر میں بھی کہا کہ جو لوگ سوچ بھی نہیں سکتے تھے وہ ہم حاصل کر چکے ہیں۔‘
سابق وفاقی وزیر نے مزید کہا کہ جے یو آئی (ف) کی اس وقت اسمبلی میں کل 11 سیٹیں ہیں اور ان 11 سیٹوں کے ساتھ وہ اپوزیشن کے سب سے بڑے کھلاڑی ہیں۔ ’میرے خیال میں ان کی سیاسی حکمت عملی انتہائی کامیاب رہی ہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کو اس وقت سمجھ نہیں آرہی کہ مولانا کا ساتھ دینا ہے یا نہیں۔‘
اسد عمر کے مطابق مولانا فضل الرحمان نے مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کو بیک فٹ پر دھکیل دیا ہے۔
’میرے خیال میں مولانا کی سیاسی حکمت عملی بہت اچھی تھی۔ وہ اپوزیشن لیڈر کے طور پر ابھر کر سامنے آئے ہیں۔ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے اپنے مقاصد ہوں گے اور کچھ لوگوں کی رائے میں مولانا کے پس پردہ مقاصد کچھ اور ہوں گے۔ لیکن جو بھی اصل ایجنڈا ہو، الیکشن میں دھاندلی ان کا ایجنڈا نہیں ہے۔‘

اسد عمر کے مطابق دھرنے کے شرکا کو منتشر کرنے کے لیے قانونی طریقہ استعمال کریں گے۔ فوٹو: روئٹرز

انہوں نے مزید کہا کہ مولانا کے اگر پس پردہ کوئی مطالبات ہوتے تو ابھی تک پتا چل جاتا۔ رہبر کمیٹی نے مذاکراتی کمیٹی کے سامنے کوئی مطالبہ نہیں رکھا ۔
’وزیراعظم نے استعفی تو دینا نہیں ہے اس لیے لوگ بھی کنفیوژ ہیں کہ اگر استعفی نہیں ملنا تو وہ چاہتے کیا ہیں؟ میرے خیال میں جو وہ چاہتے تھے وہ انہوں نے حاصل کر لیا ہے۔‘

کیا مولانا فضل الرحمان کو گرفتار کیا جا سکتا ہے؟

اسد عمر کے بقول حکومت کے پاس تمام آپشنز موجود ہوتے ہیں لیکن اس وقت مولانا کو گرفتار کرنے کے حوالے سے کوئی بات نہیں ہو رہی ہے۔

کیا مولانا کو حکومت کا حصہ بنایا جا سکتا ہے؟

سابق وفاقی وزیر کہتے ہیں کہ ’اگر مولانا فضل الرحمان کو فیس سیونگ چاہیے ہوگی اور حکومت اس میں سہولت کار بن سکتی ہے تو آئین اور قانون کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے ہم ان کے مطالبات سننے کو تیار ہیں۔

مولانا فضل الرحمان کے مطابق عمران خان کا استعفی ان کا پہلا مطالبہ ہے۔ فوٹو روئٹرز

ان کے مطابق ’کسی مفروضے کے اوپر تو بات نہیں کروں گا لیکن آئین اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے ہم کھلے دل سے ان کے مطالبات سننے کو تیار ہیں۔ حکومت نے مولانا کو فیس سیونگ دینی نہیں لیکن اگر چاہیے ہوگی اور آئین اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے حکومت سہولت کار بن سکتی ہے تو کروا دیں گے فیس سیونگ۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ مولانا کو بلوچستان یا کسی اور حکومت کا حصہ بنایا جا سکتا ہے تو انہوں نے کہا کہ مولانا کی جانب سے جب اس طرح کا کوئی مطالبہ سامنے آئے گا تو بات کریں گے۔ یہ کوئی غیر قانونی بات نہیں، ’کوئی بھی بات قانون کے دائرے کے اندر ہوئی تو بات کریں گے لیکن اس وقت اس قسم کی کوئی اشارہ بھی نہیں، ایسی کوئی بات نہیں چل رہی۔‘

حکومت دھرنا کیسے منتشر کرے گی؟

اسد عمر نے کہا کہ جب تک دھرنا کے قائدین انتظامیہ کے ساتھ کیے گئے معاہدے کی پاسداری کریں گے اور جس طرح وہ گراونڈ میں بیھٹے ہوئے ہیں، حکومت کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔
’سیاسی اجتماع کے حوالے سے عدالتی احکامات موجود ہیں اس حوالے سے مذاکراتی کمیٹی کے پاس کوئی اختیارات نہیں ہیں۔ قانون کے دائرے میں جو ہو سکتا ہے وہاں تک ہم بات سننے کو تیار ہیں۔ آئین اور قانون کے اندر آپ بتائیں کیا چاہتے ہیں ہم سننے کو تیار ہیں۔‘ 
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ میں شامل ہوں

شیئر: