Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کہیں مٹر گوشت تو کہیں مکس سبزی

دھرنے کے شرکا مختلف ٹولیوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ فوٹو اے ایف پی
جمعیت علمائے اسلام (ف) اور پاکستان کی دیگر اپوزیشن جماعتوں کے ’آزادی مارچ‘ کے بعد اسلام آباد میں دھرنے کا آج تیسرا دن ہے۔
اتوار کو ایک طرف جہاں اپوزیشن رہنما مستقبل کی حکمت عملی ترتیب دینے میں مصروف ہیں تو وہیں دوسری جانب دھرنے کے شرکا اسلام آباد میں لمبے قیام کی تیاریاں کرتے نظر آ رہے ہیں۔ 
دو دن کے دوران دھرنے کے شرکا نے اپنی قیام گاہوں کو بہتر کرتے ہوئے اپنے کھانے پینے اور رہنے سہنے کے نظام کو مزید منظم کر لیا ہے۔
کم و بیش ہر خیمے اور چٹائی پر 10 سے 15 افراد کے پاس ایک سلنڈر، چولہا، کھانے کا سامان اور ایک باورچی ضرور ہے جو اپنے ساتھیوں کی پسند ناپسند کا خیال بھی رکھ رہا ہے اور وسائل کے اندر رہتے ہوئے اپنی ضروریات بھی پوری کر رہا ہے۔

شرکا کھانے پینے کا انتظام بھی خود ہی کر رہے ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی

پنڈال میں لائٹنگ اور ساونڈ سسٹم کا نظام بھی پہلے سے بہتر کیا جا رہا ہے۔

دھرنا کتنا پھیلا ہوا ہے؟

حکومت کی جانب سے دھرنے کے لیے جمعیت علمائے اسلام (ف) کو ایچ نائن میں اتوار بازار سے ملحقہ گراونڈ دیا گیا تھا تاہم اب اگر یہ کہا جائے کہ دھرنے کے شرکا اس گراونڈ سے چھ گنا زیادہ جگہ گھیر چکے ہیں تو شاید غلط نہ ہوگا۔
اتوار بازار سے ملحقہ گراونڈ، جی نائن کے سنگل سے لے کر جی ٹین تک دونوں اطراف سے کشمیر ہائی وے، گرین بیلٹس، زیر تعمیر میٹرو سٹیشنز اور پل سبھی دھرنا شرکا کی رہاش گاہوں میں تبدیل ہو چکے ہیں۔
اس میں آدھے سے زیادہ حصے پر صرف انسان ہیں جبکہ بقیہ حصے پر گاڑیاں کھڑی ہیں جن میں ضروری سامان موجود ہے۔

کھانے میں کیا ہے؟

دھرنے والوں کا کوئی ایک مینیو نہیں ہے۔ ہر خیمے اور ہر علاقے کا اپنا مینیو ہے۔ نان کے ساتھ آلو، چھوٹا بڑا گوشت، مرغی، کلیجی، لوبیا، دال، مکس سبزی اور علاقائی ڈشز بھی دستیاب ہیں۔ یہ کھانا باہر سے نہیں آیا بلکہ خود جمعیت کے کارکنان نے بنایا ہے۔

دھرنے کے شرکا کھانے پینے کا سامان اپنے ساتھ لائے ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی

ہم گھومتے گھوماتے جب بلوچستان کے کیمپ میں پہنچے تو دیکھا کہ چند لوگ باسی روٹیوں کے ٹکڑے کر رہے تھے۔ خیال گزرا کہ یہ ٹکڑے پرندوں کو ڈالنے کے لیے بنا رہے ہیں پوچھنے پر معلوم ہوا کہ شاکر اللہ ’سرید‘ بنا رہے ہیں۔
دھرنے میں شریک شاکر اللہ نے بتایا کہ ’یہ سنت نبوی پر مبنی کھانا ہے۔ رات کی بچی ہوئی روٹیاں دال کے سالن میں پکا کر ساتھیوں کو پیش کریں گے۔ جو ان کو بہت پسند ہیں۔ آزادی مارچ کے دوران راستے میں ان کو بنا کر دیں سب نے پسند کیں۔‘
ساتھ ہی سندھ سے آئے ہوئے کارکنان کا پڑاو تھا جہاں چاچا اللہ بخش نے مکس سبزی کی دیگ چڑھا رکھی تھی۔ آلو مٹر تو نظر آرہے تھا۔ پوچھا مزید کون سی سبزیاں ڈالی ہیں تو کہنے لگے ’مکس سبزی کا مطلب ہے ساری سبزیاں جتنی ملیں، سب ڈال دیں۔‘

دھرنا بازار

جوں جوں دھرنے والوں کا قیام طویل ہو رہا ہے کاروباری ذہن رکھنے والے بھی متحرک ہوتے جا رہے ہیں۔ کراچی کمپنی کی جانب سے دھرنے میں داخلے سے پہلے روہتاس روڈ بازار کا روپ دھار چکا ہے۔ چھوٹے موٹے کھانے، فروٹ چاٹ، چائے، جوس، قلفی، موبائل اسیسریز، ٹوپیاں، چادریں، تسبیح اور بیجز بیچنے والے سبھی موجود ہیں۔ دھرنے کے اندر تو نسوار فروشوں کی بھی چاندی ہو گئی ہے۔

کمی کیا ہے؟

ویسے تو آزادی مارچ کو جمعیت علمائے اسلام (ف)، مسلم لیگ ن، پاکستان پیپلز پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی، قومی وطن پارٹی اور پی کے میپ سمیت کئی دیگر جماعتوں کا مارچ اور دھرنا کہا جا رہا ہے لیکن دھرنے کے مقام پر نمائندگی صرف جے یو آئی کی دکھائی دیتی ہے۔

دھرنے میں ن لیگ کے ورکرز نظر نہیں آ رہے۔ فوٹو: روئٹرز

دھرنے کے کسی بھی کونے کا دورہ کر لیں خیبر پختونخواہ، بلوچستان اور سندھ سے تعلق رکھنے والے افراد مل جائیں گے لیکن پنجاب کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے۔
اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ ن کا کیمپ موجود ہے لیکن اس میں ایک بھی لیگی کارکن موجود نہیں۔ پیپلز پارٹی اور اے این پی کی دیگر جماعتیں بھی پہلے دن حاضری لگوانے کے بعد واپس جا چکے ہیں۔

شیئر: