Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پنجاب میں خلع حاصل کرنے کے رجحان میں اضافہ کیوں؟

لاہور میں فیملی کورٹس کی تعداد تیس ہے جن میں سے بائیس عدالتوں میں طلاق، خلع اور نان نفقے سے متعلق ہزاروں کیس زیر سماعت ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی
سائرہ علی (فرضی نام) لاہور کی رہائشی ہیں اور حال میں انہوں نے فیملی کورٹ میں خلع کا دعوی دائر کیا تھا اور لگ بھگ دو مہینے میں ہی انہیں عدالت نے خلع کی ڈگری جاری کر دی۔
سائرہ علی نے اپنی کہانی سناتے ہوئے بتایا ’میں نے پسند کی شادی کی تھی اور اس میں میرے والدین کی مرضی بھی شامل تھی، شادی کو ابھی سال ہی گزرا تھا کہ میں نے محسوس کیا کہ میرے شوہر میرے میں اب کم دلچسپی لیتے ہیں اور ہر وقت موبائل میں مصروف رہتے ہیں جلد ہی مجھے پتا چلا کہ وہ ایک ڈیٹنگ ایپلیکیش ٹنڈر استعمال کرتے ہیں مجھے پہلے اس کا زیادہ علم نہیں ہوا لیکن جب وہ موبائل سے ہٹ کے بھی گھر سے باہر رہنا شروع ہوئے اور ان کی کئی خواتین دوست گھر میں آنا شروع ہوئیں تو مجھے احساس ہوا کہ کہیں کچھ گڑبڑ ہے۔ پھر جب میں نے اس موبائل ایپلیکیش ٹنڈر کے بارے میں معلومات حاصل کیں تو مجھے پتا چلا کہ وہ تو اور خواتین کے ساتھ راہ و رسم بڑھا رہے ہیں۔ میں نے بہت کوشش کی کہ وہ اس سے باز رہیں، ہم نے اس موضوع پر بہت بات کی لیکن وہ اس سے نہیں ہٹے۔‘
سائرہ نے بالآخر اپنے شوہر سے طلاق کا مطالبہ کر دیا جو انہوں نے نہیں مانا جس پر انہوں نے عدالت سے رجوع کیا اور خلع کا دعوی دائر کر دیا جسے عدالت نے منظور کر لیا۔
یہ کہانی صرف ایک خاتون کی نہیں جس نے عدالت سے خلع کے لیے رجوع کیا۔ ایک اور خاتون سلمیٰ بی بی (فرضی نام) جو اس وقت ایک وکیل سے مشاورت کے لیے ان کے چیمبر کے چکر لگا رہی ہیں وہ اپنی کہانی کچھ ایسے سناتی ہیں ’میری شادی کو سولہ سترہ سال ہو چکے ہیں اور میں دو بچوں کی ماں ہوں میرا ایک بچہ تو او لیول میں پڑھتا ہے میرا شوہر چھوٹی چھوٹی باتوں پر مجھ پر ہاتھ اٹھاتا ہے اور یہ سلسلہ پہلے دن سے ہے وہ بچوں کے سامنے بھی مجھے مارتا ہے، اب تو بچوں کے ڈرنے کی حس بھی ختم ہو گئی ہے، وہ بھی کہتے ہیں ماما ہم کیا کریں یہ ایسے ہی چلے گا۔‘
سلمیٰ نے خلع سے متعلق کافی تحقیق کے بعد اب عدالت سے رجوع کا فیصلہ کیا ہے اور اب تو وہ بچوں سے دستبردار ہونے کے لیے بھی تیار ہیں۔ لیکن اس عمل کو جلد از جلد اور مختصر وقت میں کرنا چاہتی ہیں۔ ان کو خدشہ ہے کہ اگر یہ معاملہ طوالت اختیار کر گیا تو ان کے لیے مزید مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔

 

پاکستان کے صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں خاندانی معاملات طے کرنے والی عدالتوں یعنی فیملی کورٹس کی تعداد 30 ہے جن میں سے 22 عدالتوں میں طلاق، خلع اور نان نفقے سے متعلق ہزاروں مقدمات زیر سماعت ہیں۔
اردو نیوز کو موصول ہونے والے اعدادوشمار کے مطابق ان عدالتوں میں مقدمات کی تعداد گیارہ ہزار کے قریب پہنچ چکی ہے جبکہ رواں برس کے پہلے 10 ماہ کے دوران960  خلع کی ڈگریاں جاری کی گئی۔ جو کہ پچھلے سال کے اعدادو شمار سے دس فیصد زیادہ ہیں۔ اکتوبر کے پہلے ہفتے میں 20 خلع کی ڈگریاں جاری ہوئیں جو کی کسی بھی ہفتے میں جاری ہونے والی خلع کی ڈگریوں کی ریکارڈ تعداد ہے۔

خلع کے رجحان میں اضافہ کیوں؟

عائلی قوانین کی ماہر اور انسانی حقوق کی سرگرم کارکن ایڈووکیٹ ربیعہ باجوہ کا کہنا ہے ’یہ کوئی اچھنبے کی بات نہیں۔ خلع کے اعدادو شمار میں اضافہ صرف اس وجہ سے زیادہ دکھائی دے رہا ہے کہ عورتوں میں شعور آ رہا ہے یہی عورتیں سالوں سے اپنے ساتھ ہونے والے ظلم پر خاموش رہتی ہیں اور ان کو اپنے حقوق تک کی آگاہی نہیں ہے۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ جس تناسب سے آبادی بڑھ رہی ہے آپ کو اس طرح کے اعداد و شمار میں اضافہ ملے گا جو انسانوں سے متعلق ہیں، اگر آپ نکاح اور شادیوں کا ڈیٹا نکالیں تو اس میں بھی ہر سال اضافہ ہی نظر آئے گا۔ بالکل ایسے ہی خلع کا معاملہ ہے اگر عورت سمجھتی ہے کہ وہ اس مرد کے ساتھ مزید نہیں رہنا چاہتی تو یہ اس کا بنیادی حق ہے۔‘

ایڈووکیٹ فہد صدیقی کا کہنا ہے کہ ان کے خیال میں خلع کے معاملے پر عدالتیں تھوڑی جلد بازی سے کام لے رہی ہیں۔ فوٹو: سوشل میڈیا

ایڈووکیٹ فہد صدیقی جو سوشل میڈیا پر بھی خاصے سرگرم ہیں اور خاندانی مسائل کے ایک مشہور وکیل ہیں۔ انہوں نے والدین کی علیحدگی کی وجہ سے بچوں پر ہونے والے اثرات اور مسائل پر ایک فیس بک گروپ بھی بنا رکھا ہے ان کا نقطہ نظر ذرا مختلف ہے۔
"میرے خیال میں خلع کے معاملے پر عدالتیں تھوڑی جلد بازی سے کام لے رہی ہیں ایک ایک مہینے میں بھی خلع کے فیصلے کیے جا رہے ہیں۔ حالانکہ عدالت کو آخری حد تک ایک گھر بچانے کے لیے جانا چاہیے۔ اور ایسے معاملات میں جتنی تاخیر ہو اتنی بہتر ہے۔‘
جبکہ ربیعہ باجوہ یہ سمجھتی ہیں کہ ایک عورت عدالت کا دروازہ تبھی کھٹکھٹاتی ہے جب اس کی ساری امیدیں دم توڑ جاتی ہیں ’طلاق کا لفظ ہمارے معاشرے میں عورت کے لیے جتنا نقصان دہ سمجھا جاتا ہے مرد کے لیے نہیں ہے۔ تو ایسے میں اگر ایک عورت عدالت تک پہنچ گئی ہے تو اس کو مزید اس صورت حال سے دوچار نہیں رکھا جا سکتا۔ اور یہ ایسا بالکل بھی نہیں ہے کہ ادھر آپ نے درخواست دی تو ادھر خلع ہو گئی باقاعدہ شوہر کو نوٹس جاری کیا جاتا ہے اور ایک دو تاریخیں دی جاتی ہیں جس میں عدالت مصالحت کا وقت بھی دیتی ہے لیکن اگر عورت تہیہ کر لے کہ وہ نہیں رہنا چاہتی تو مقدمہ تو وہیں ختم ہو جاتا ہے۔‘
عام طور پر پاکستان کے عدالتی نظام میں انصاف کا عمل طویل ہوتا ہے حال ہی میں ہونے والا ایک واقعہ جو مقامی میڈیا میں کافی زیر بحث رہا جس میں گلوکار محسن عباس پر ان کی اہلیہ فاطمہ سہیل نے الزام عائد کیا تھا کہ وہ انہیں گھریلو تشدد کا نشانہ بناتے ہیں۔ فاطمہ کی درخواست پر پولیس نے محسن عباس پر مقدمہ درج کر لیا لیکن اس دوران ہی فاطمہ سہیل نے خلع کا دعوی بھی دائر کیا اور ایک مہینے میں ہی عدالت نے خلع کی ڈگری جاری کر دی۔ تاہم ان کا گھریلو تشدد کا مقدمہ ابھی بھی زیر سماعت ہے۔

شیئر: