Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

تھرپارکر: تین دن میں نو خودکشیاں، وجہ کیا ہے؟

ایس ایس پی عبداللہ احمد کے مطابق خودکشی کے واقعات کی وجہ گھریلو پریشانیاں ہیں۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
سندھ کے ضلع تھر پارکر میں گذشتہ تین دنوں کے دوران نو افراد نے مبینہ طور پر خودکشی کی جن میں پانچ خواتین بھی شامل ہیں۔ پولیس خودکشی کے واقعات میں اچانک اضافے سے انکار کر رہی ہے جبکہ مقامی افراد اور سوشل میڈیا پر تعداد زیادہ بتائی جا رہی ہے۔
اسلام کوٹ کے شہری جی آر جونیجو نے اردو نیوز کو بتایا کہ اب تک ہوئے خودکشی کے واقعات میں ہندو برادری کی میگھواڑ، کوہلی اور بھیل کمیونٹی کے افراد نے اپنی جان لی۔ ان کا کہنا تھا گو کہ ان کمیونٹی کے لوگ زیادہ امیر نہیں ہوتے مگر گذشتہ دنوں میں ہوئی خودکشی کے واقعات کی وجہ غربت نہیں۔
تھر پارکر کے ایس ایس پی عبداللہ احمد نے اردو نیوز کو بتایا کہ خودکشی کے واقعات کی وجہ گھریلو ناچاقی اور پریشانی ہے۔ انہوں کا کہنا تھا کہ پولیس کے پاس ابھی تک صرف دو خواتین کے خودکشی کرنے کی اطلاع ہے جب کہ اسلام کوٹ کے گاؤں لاڑھکی کی ایک لڑکی نے گلے میں پھندا ڈالکر خودکشی کرنے کی کوشش کی تھی جسے بچا کر تشویشناک حالت میں ہسپتال منتقل کیا گیا جہاں وہ ابھی زیرعلاج ہے۔

خودکشی کے واقعات میں مقامی ہندوؤں کی میگھواڑ، کوہلی اور بھیل کمیونٹی کے افراد نے اپنی جان لی۔ (فوٹو:اے ایف پی)

تحصیل اسلام کوٹ کے گاؤں تہڑی کی دو شادی شدہ خواتین نے اپنے آپ کو قریبی جنگل میں درخت سے لٹک کر خودکشی کی۔ ایس ایس پی عبداللہ احمد کے مطابق دونوں خواتین دو بھائیوں کی بیویاں تھیں اور انہوں نے گھریلو جھگڑوں کی وجہ سے خودکشی کی، پولیس واقعے کی مزید تحقیقات کر رہی ہے۔
اردو نیوز کے ذرائع کے مطابق جمعے کے رات کو مٹھی کی رہائشی لڑکی نے خودکشی کی جب کہ اس کے اگلے دن قریبی گاؤں لکھنیار کے رہائشی اس لڑکی کے منگیتر نے ہی خودکشی کر لی۔ ایک اور واقعے میں مٹھی تحصیل کے گاؤں سوری وانڈ میں 20 سالہ خاتون نے کنویں میں چھلانگ لگا کر خودکشی کی۔
تھر پارکر کے مقامی افراد کا کہنا ہے کہ خودکشی کی واقعات کی وجہ غربت نہیں کیونکہ اس بار ریکارڈ بارشیں ہوئی ہیں جس کے باعث علاقے میں کھیتی باڑی اور فصل منافع بخش ہوئی ہیں، ایسی صورت میں غربت کی وجہ سے خودکشی کرنے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔

پولیس کے مطابق خودکشی کے ان واقعات کی تحقیقات کی جارہی ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

مٹھی کے رہائشی کیلاش میگھواڑ نے اردو نیوز کو بتایا کہ خودکشی کے واقعات کی کوئی واضح وجہ سمجھ نہیں آ رہی۔ ان کا کہنا تھا کہ گھریلو جھگڑے اور پریشانی کی وجہ سے اگر کچھ ہوا ہو تو اس کے بارے میں بات کرنے کا رواج نہیں لہٰذا وہ بات وہیں دب جاتی ہے۔
پولیس سے جب اس بابت پوچھا گیا کہ کیا ان واقعات کی روک تھام کے لیے کوئی کارروائی عمل میں لائی گئی ہے تو ان کا کہنا تھا کہ پولیس کی جانب سے واقعے کی رپورٹ درج کر کے تحقیقات کی جا رہی ہے۔ ایس ایس پی عبداللہ کا کہنا تھا کہ خودکشی کے واقعات میں پولیس کی جانب سے دفع 174 کے تحت کاروائی کی جاتی ہے، اگر تو ہلاکت میں قتل یا اقدام قتل کا شائبہ ہو تو اس صورت میں واقعے کا مقدمہ درج کیا جاتا ہے وگرنہ ضابطے کی کاروائی کر کے خودکشی کی رپورٹ مجسٹریٹ کے روبرو پیش کردی جاتی ہے۔
تھر پارکر سے تعلق رکھنے والے انسانی حقوق کے کارکن ایڈوکیٹ کاشف بجیر نے اردو نیوز کو بتایا کہ رواں سال جنوری سے اب تک خودکشی کے 74 واقعات پولیس کے پاس رپورٹ ہو چکے ہیں، جبکہ گذشتہ چار دنوں میں نو خودکشیاں ہوئیں جس میں سے چار ایک ہی دن میں ہوئیں۔

کاشف بجیر کا کہنا ہے کہ پولیس ریکارڈ کے مطابق رواں سال امر کوٹ اور تھرپارکر میں خودکشی کے 74 واقعات ہوئے۔ فوٹو سوشل میڈیا

کاشف بجیر کا کہنا تھا کہ خودکشی کی اصل وجہ غریب گھرانوں پر مائیکرو فنانس بنکوں کی جانب سے دیے گئے قرضوں کی وصولی کے لیے دباؤ ہے۔ انہوں نے بتایا کہ تمام مائیکرو فنانس بنکوں کی جانب سے تھر پارکر کے غریب عوام کو 15 سے 20 ہزار کا قرض دیا گیا ہے، لیکن اس قرض کی واپسی کے لیے مناسب ذرائع نہ ہونے کے باعث تھر پارکر کے بیشتر عوام قرض کے بوجھ تلے دبتے چلے جا رہے ہیں۔
ان قرضوں کے ادائیگی کے لیے بنکوں کی جانب سے دباؤ ڈالا جاتا ہے جس کے سبب لوگ گھریلو پریشانی کا شکار ہیں اور ان کی رہنمائی اور کاؤنسلنگ کے لیے مناسب سہولتیں میسر نہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ پولیس ان واقعات کی تفتیش نہیں کرتی اور گھریلو ناچاقی یا دماغی توازن خراب ہونے کہ وجہ بتا کر کیس بند کر دیتی ہے۔ ’پولیس کے اپنے ریکارڈ کے مطابق رواں  سال امر کوٹ اور تھرپارکر میں خودکشی کے 74 واقعات ہوئے، لیکن ایک واقعے کی ایف آئی آر بھی درج نہیں ہوئی۔
خود کشی کے تقریباً تمام واقعات ہی ہندو گھرانوں میں ہوئے۔ کاشف بجیر کا کہنا ہے کہ مخصوص ہندو ذات کے سخت رسم و رواج اور رہن سہن بھی خودکشی کی وجوہات میں سے ہیں۔
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ میں شامل ہوں

شیئر: