Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

صدارتی ریفرنس کالعدم قرار دینے کی استدعا

جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے خلاف ریفرنس کی سماعت کے دوران ان کے وکیل منیر اے ملک نے موقف اختیار کیا ہے کہ کابینہ کی منظوری کے بغیر بھیجا گیا ریفرنس کالعدم قرار دے دیا جائے۔ صدر وزیر اعظم کی نہیں کابینہ کی ایڈوائس پر عمل در آمد کے پابند ہیں۔
منیر  اے ملک نے کہا کہ آئین میں آرٹیکل 209 کے علاوہ کسی جگہ آئین میں صدر مملکت کو اپنی رائے کا اختیار نہیں دیا گیا۔ اس معاملے میں صدر نے وزیراعظم کی سفارش پر عمل کرکے آئین کی خلاف ورزی کی ہے۔
سپریم جوڈیشل کونسل کی کاروائی کے خلاف درخواستوں پر سماعت جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں فل کورٹ بینچ نے کی۔

 

جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے وکیل منیر اے ملک نے اپنے دلائل میں کہا کہ’ 18 ویں ترمیم سے قبل صدر مملکت وزیراعظم اور وفاقی وزرا کی جانب سے بھیجی گئی ایڈوائس کو زیر غور لانے کے لیے کابینہ کو بھیج سکتے تھے اور صدر کابینہ کی ایڈوائس کے پابند تھے۔ 18ویں ترمیم کے بعد صدر مملکت وزیراعظم اور کابینہ کی ایڈوائس پر 10 روز میں عمل کرنے کے پابند ہیں۔‘
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ ’ آئین ایک جگہ کہتا ہے کہ صدر مملکت اپنے صوابدیدی اختیار کا استعمال کرے گا، دوسری جگہ آئین صدر مملکت کو وزیراعظم کی ایڈوائس کا پابند کرتا ہے۔‘
منیر اے ملک نے کہا کہ وفاقی حکومت کے رولز آئین سے بالاتر نہیں۔ ماضی میں پارلیمنٹ کو یرغمال بنانے کے لیے ترامیم ہوئیں۔ مصطفیٰ ایمپکس فیصلے کے بعد صدارتی آرڈیننس کابینہ کی منظوری کے بغیر نہیں لایا جا سکتا۔

فائز عیسٰی کے خلاف ریفرنس کی سماعت جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں بینچ نے کی، فوٹو: وکی پیڈیا

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ مصطفیٰ ایمپکس فیصلے سے قبل وفاقی حکومت کے قواعد کی روشنی میں ایڈوائس بھیجی جاتی تھی جس پر منیر  اے ملک نے کہا کہ مصطفیٰ ایمپکس کیس میں 18 ہویں ترمیم کے بعد وفاقی حکومت کے معاملات  کی تشریح کی گئی ہے۔  
جسٹس منصور علی شاہ نے  استفسار کیا کہ صدر مملکت کسی ایڈوائس پر عمل کرتا ہے۔ جب ایڈوائس پر ہی چلنا ہے تو وہ اپنی رائے کیسے بنائے گا؟ آرٹیکل 209  کے تحت صدر مملکت وفاقی حکومت کے معاملات  کو تقویت نہیں دے سکتا ہے۔ کیا آئین میں کوئی ایسا آرٹیکل ہے جہاں صدر مملکت نے اپنی رائے بنانا ہوتی ہے؟
وکیل منیر اے ملک نے جواباً کہا کہ آرٹیکل 209 کے علاوہ کسی جگہ آئین میں صدر مملکت  کو اپنی رائے کا اختیار نہیں دیا گیا۔ صدر مملکت کو کابینہ کی ایڈوائس پر عمل کرنا چاہیے کیونکہ وہ اس کے پابند ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’وفاقی حکومت کے رولز کے تحت صدر مملکت وزیراعظم کی ایڈوائس پر چلتے ہیں۔ صدر مملکت کا وزیر اعظم کی ایڈوائس پر چلنا قانون کی خلاف ورزی ہے۔ جج کے خلاف ریفرنس بھیجنا، جج کو عہدے سے ہٹانا فیڈریشن کا انتظامی اختیار ہے۔‘
جسٹس فیصل عرب نے ریمارکس میں کہا کہ عدالتی فیصلے میں وزیر اعظم یا کابینہ کا ذکر ہے۔ جس پر منیر  اے ملک نے کہا کہ بعض اہم فیصلے کرنا کابینہ کا نہیں وزیراعظم کا اختیار ہےجیسے آرمی چیف کا تقرر وزیراعظم کا آئینی اختیار ہے۔

منیر اے ملک کہتے ہیں کہ آرٹیکل 209 کے سوا صدر کو اپنی رائے کا اختیار نہیں دیا گیا، فوٹو: اے ایف پی

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ مصطفیٰ ایمپیکس کیس کے مطابق وفاقی حکومت سے مراد کابینہ ہے۔ عدالتی فیصلے میں صرف کابینہ کو بائی پاس کرنے کا اختیار ختم کیا گیا ہے۔
منیر اے ملک نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’آئین بتاتا ہے کہ کہاں وزیراعظم اور کہاں کابینہ کی منظوری لازمی ہے۔ میرا موقف ہے کہ کابینہ کی منظوری کے بغیر ریفرنس بھیجنے پر اسے کالعدم قرار دے دیا جائے۔‘
اس کیس کی مزید سماعت کے حوالے سے منیر  اے ملک نے کہا کہ مزید دلائل ساتھی وکیل بابر ستار کے دلائل کے بعد دوں گا۔  جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ کیس کی آئندہ تاریخ آفس کے ذریعے بتا دی جائے گی۔ بینچ کی دستیابی کو مدنظر رکھ کر سماعت کی تاریخ مقرر کی جائے گی۔ کیس کی سماعت غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کر دی گئی۔
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ میں شامل ہوں

شیئر: