Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بنارس یونیورسٹی میں پروفیسر کے تقرر پر ہنگامہ کیوں؟

بی ایچ یو کے وائس چانسلر نے پروفیسر فیروز کے تقرر کا دفاع کیا ہے، فوٹو: سوشل میڈیا
انڈیا کی معروف بنارس ہندو یونیورسٹی (بی ایچ یو) میں ایک مسلمان شخص کی سنسکرت زبان کے پروفیسر کے عہدے پر تقرری کے خلاف کئی روز سے مظاہرہ جاری ہے۔
احتجاج کرنے والے طلبہ کا کہنا ہے کہ ایک مسلمان کس طرح سنسکرت اور ہندو مذہب کی تعلیم دے سکتا ہے۔
دھرنا دینے والے طلبہ پروفیسر فیروز خان کی تعیناتی منسوخ کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں جبکہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر نے پروفیسر فیروز کے تقرر کا دفاع کیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ پرفیسر فیروز تمام امیدواروں میں سب سے قابل ثابت ہوئے اور مذہب کے نام پر ان کے ساتھ تفریق نہیں برتی جا سکتی۔

 

ٹوئٹر پر ’بی ایچ یو میں فیروز کیوں‘ ٹرینڈ کر رہا ہے اور اس تقرری سے متعلق گرما گرم بحث جاری ہے۔ بعض اسے مذہب کی عینک سے دیکھ رہے ہیں تو بعض اسے لیاقت کی عینک سے۔
فیروز خان کا تعلق انڈیا کی مغربی ریاست راجستھان سے ہے اور انھوں نے راشٹریہ سنسکرت سنستھان سے تعلیم حاصل کی ہے۔ فیروز سنسکرت زبان و ادب میں پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی حاصل کر رکھی ہے۔
انھیں رواں سال ہی صدر جمہوریہ سے انتہائی اہم شہری ایوارڈ پدم شری سے بھی نوازا جا چکا ہے اور انھیں سیکولر طبقے میں انڈیا کی مشترکہ ہندو مسلم تہذیب کے علمبردار کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
ایسے میں ٹوئٹر پر جاری مباحثے کے چند ٹویٹس دلچسپی سے خالی نہیں کیونکہ اس سے یہ اندازہ ہو جاتا ہے کہ آج انڈیا کا سماج کس طرح منقسم ہے۔
پرگیا اوئکے نامی ایک ٹوئٹر صارف نے بی ایچ یو کی ویب سائٹ سے سنیپ شاٹ پیش کرتے ہوئے لکھا ہے کہ جو 'بی ایچ یو میں فیروز کیوں؟' ٹرینڈ کروا رہے ہیں انھیں پہلے یہ پیغام پڑھنا چاہیے جو ان کی اپنی ویب سائٹ پر ہے۔
اس شاٹ میں بنارس ہندو یونیورسٹی کے بانی مدن موہن مالویہ کا بیان ہے جس میں لکھا ہے کہ 'انڈیا صرف ہندوؤں کا ملک نہیں ہے۔ یہ مسلمانوں، عیسائیوں اور پارسیوں کا ملک بھی ہے۔ ملک اسی وقت ترقی اور قوت حاصل کر سکتا ہے جب انڈیا کی مختلف برادریاں خیرسگالی کے جذبات کے ساتھ مل جل کر رہیں۔
'وکرم نامی ایک صارف نے لکھا کہ 'میرے خیال سے اس قسم کے مسئلے کو طول دینا ٹھیک نہیں کیونکہ یہ مذہبی مسئلہ نہیں ہے بلکہ علم کی اہمیت ہے۔ اس لیے جو سنسکرت بہتر جانتا ہے اور اچھی پڑھاتا ہے اس کی اہمیت ہے چاہے وہ فیروز ہو یا سریش۔ پروفیشنل بنیں۔'
 
جبکہ آر بگ وگ نامی ایک صارف نے لکھا کہ ’اخلاقی طور پر دیوالیہ سماج ہی کسی استاد کے خلاف ہو سکتا ہے اور اسے یونیورسٹی میں نہیں چاہے گا۔'
پرشانت بھارتی نامی ٹوئٹر صارف نے لکھا کہ ’بی ایچ یو کو جے این یو بنانے سے روکا جائے۔ جو یہ سوچتے ہیں کہ ایسا ہو سکتا ہے انھیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ جے این یو 'نہرو' کے مقابلے میں بی ایچ یو میں 'ہندو' لفظ نمایاں ہے۔‘
وکیل اور پبلک سپیکر پرشانت پٹیل امراؤ نے لکھا کہ ’ 15 سال بعد شعبہ مذہبیات میں ایک مسلمان پروفیسر ہو گا۔ صدر شعبہ ہو گا، ڈین ہو گا، تقرری کرے گا اور ایک دور آئے گا جب ہندو یونیورسٹی کے ہندو مذہب کے شعبے کا نظام غیر ہندو دیکھیں گے اور اس ادارے کے قیام کا بنیادی مقصد ریزہ ریزہ ہو جائے گا۔‘
انڈیا کے معروف صحافی اپورو انند نے ستیہ ہندی نامی ویب سائٹ پر لکھا ہے کہ ’بنارس ہندو یونیورسٹی میں ڈاکٹر فیروز خان کی تقرری کے خلاف مہم جاری ہے۔ یونیورسٹی نے واضح کر دیا ہے کہ ڈاکٹر خان کی تقرری میں تمام ضوابط کی پابندی کی گئی ہے لیکن احتجاج کرنے والے ماننے کو تیار نہیں ہیں۔ تکلیف اس بات کی ہے کہ یونیورسٹی کی اساتذہ برادری اس معاملے پر خاموش ہے۔ ڈاکٹر خان کی حمایت میں بولنے سے زیادہ ضروری اس مہم کے خلاف بولنا ہے۔‘
واٹس ایپ پر خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ میں شامل ہوں

شیئر: