Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’ڈیڑھ سو روپے اور نصف صدی پرانی خبر‘

کالم نگار کو پرانے اخباروں کو جِلد کرانے کا خیال تب آیا جب وہ جلد کے قابل ہی نہیں رہے۔ فوٹو: سوشل میڈیا
پرانے، بہت ہی پرانے اخبار کسی کے لیے چاہے نوادر کے برابر ہوں، دوسروں کے لیے محض ردّی کا ڈھیر ہیں۔ ایسے ہی کچھ ڈھیر میرے پاس بھی ہیں۔ کچھ میرے بچپن کے زمانے کے، کچھ والد مرحوم کے دور کے، کچھ اس سے بھی پرانے۔ انہیں سنبھال کر رکھا مگر جلد کرانے کا خیال تب آیا جب وہ جلد کے قابل ہی نہیں رہے۔ اتنے خستہ حال کہ ایک اٹھاؤ تو چار ہو جاتے ہیں۔ یہ اخبار ماضی کے دفینے ہیں۔ بھولے بسرے زمانوں  کی ان گنت تصویریں ان میں منجمد ہیں۔ یہ ’ٹائم کیپسول‘ ہیں۔ سال دو سال میں ایک بار ایک آدھ دفینہ کھول لیتا ہوں، عہد گم گشتہ کی درد بھری سیر ہو جاتی ہے۔
گاہے گاہے باز خواں ایں ’ردّی‘ پارینہ را
گذشتہ روز ایک بَنڈل کھولا تو اوپر اخبار کا آخری صفحہ تھا۔ یہ جنگ کراچی کا شمارہ تھا، 2 جون 1970 کا۔ اوپر کے حصے میں اس خبر پر نظر پڑی۔ ڈھاکہ میں کسی ملک گیر سیاسی جماعت کا مرکزی اجلاس تھا، اس نے مطالبہ کیا تھا کہ کم از کم تنخواہ ڈیڑھ سو روپے مقرر کی جائے۔

ڈھاکہ میں ایک سیاسی جماعت کے اجتماع میں ڈیڑھ سو روپے تنخواہ مقرر کرنے کا مطالبہ ہوا، فوٹو: اے ایف پی

ڈھاکہ کے ’اجنبی شہر‘ ہونے میں ابھی ڈیڑھ سال باقی تھا۔ خیر، ڈیڑھ سو روپے پر خیال مسکرایا۔ ڈیڑھ سو روپے؟ یعنی آج کل کے حساب سے آدھا کلو ٹماٹر کے برابر۔ لیکن یہ پچاس سال پرانی بات ہے۔ تب ایک روپے کا نوٹ بھی ہوتا تھا اور سک٘ہ بھی اور ایک روپے میں سولہ آنے یا سو پیسے ہوتے تھے۔ ہر آنے اور پیسے سے کچھ نہ کچھ خریدا جا سکتا تھا۔ ڈائجسٹ ڈیڑھ روپے میں، اخبار جہاں یا اخبار خواتین بارہ آنے میں آتا تھا۔ جس اخبار میں یہ مطالبہ چھپا، اس کی پیشانی پر قیمت بیس پیسے درج ہے یعنی ایک روپے میں پانچ اخبار۔
بظاہر ڈیڑھ سو روپے تنخواہ اس اعتبار سے کافی مناسب نظر آتی ہے۔ مہنگائی نے پچاس برسوں میں بہت لمبا سفر طے کیا ہے لیکن تب سے زمانے کی شکل بھی کتنی بدل گئی ہے۔ کتنی ہی ’ضروریات‘ آج کی ایسی ہیں جو اس گزرے دور میں وجود ہی نہیں رکھتی تھیں اور ان کے بنا زندگی پوری سہولت سے کٹ جاتی تھی۔

کمپیوٹر انٹرنیٹ اور موبائل اب لازمی جز بن گئے ہیں۔  فوٹو: پکسا بے

مثال کے طور پر آج کے مڈل، آف دی مڈل کلاس اور لوئر کلاس طبقے کی زندگی کیبل ٹی وی، کمپیوٹر انٹرنیٹ اور موبائل کے بغیر ممکن ہی نہیں اور تب یہ چیزیں تھیں ہی نہیں۔ پہلے پہل یہ اور ان جیسی کئی اور اشیا بطور تعیشات سامنے آئیں۔ رفتہ رفتہ سہولیات بن گئیں پھر ’لازمات‘ کا روپ دھار گئیں۔ یہ سب چیزیں ماضی میں نہیں تھیں تو ان کے خرچے بھی نہیں تھے۔
پھر کچھ اور چیزیں ہیں جو اب بہت مہنگی ہیں تب سستی تھیں۔ سر فہرست بجلی ہے۔ فی یونٹ بہت کم نرخ تھا اور بجلی کے بل پر شیطان کی آنت بنے بے شمار ٹیکس بھی نہیں تھے۔ پھر یہ سستی بجلی بہت کم استعمال ہوتی تھی۔ صرف پنکھا اور بلب۔ درمیانی اور نچلی کلاس میں فرج، اے سی تو دور کی بات، ایئر کولر بھی نہیں تھے۔ پنکھا اور بجلی کتنے یونٹ کھا لیتے ہوں گے؟
سکول سرکاری تھے، برائے نام فیس۔ کتابیں واجبی گنتی میں۔ پانچویں جماعت کی کل کتابیں عام سے بستے میں آجاتی تھیں۔ ہر دوسرے روز کسی فنکشن کے نام پر بچوں کے والدین سے سینکڑوں ہزاروں روپے زبردستی اینٹھ لینے کا نادر خیال کسی کے حاشیہ خیال میں بھی نہیں تھا۔ پرائیویٹ سکولز کا کلچر تو ابھی دو عشرے پہلے آیا۔

پاکستان میں عام لوگوں کو طب کی معیاری سہولت میسر نہیں۔ فوٹو: ہیلتھ ڈاٹ مل

سرکاری ہسپتالوں میں علاج ہو جاتا تھا۔ گلی محل٘ے کے ڈاکٹر بھی فوری اور سستے میں علاج کے لیے دستیاب تھے۔ انگلی پر خراش کا علاج کرنے کے لیے مریض کو دس بارہ لیبارٹری ٹیسٹ کرانے کا حکم دینے والے مسیحا ابھی نازل ہی کہاں ہوئے تھے۔
شادی بھی سستی تھی مرگ بھی۔ شادی کے جلسے گھروں میں یا گلیوں میں ہو جاتے تھے۔ پڑوسی اپنے آنگن بھی دے دیتے تھے، دیگر اسباب بھی اور افرادی قوت بھی۔ میرج ہال آئے تو شادی کے ادارے کی کایا کلپ ہی ہو گئی۔ مرنے کے بعد قبر مفت مل جاتی تھی۔ اب تو مہنگی قبر اور وہ بھی سفارش کے ساتھ، ایسے ڈراؤنے خواب کی نوبت نہیں آئی تھی۔
کھانا گھروں میں ہی کھایا جاتا تھا۔ ہوٹل، ریسٹورنٹ مسافروں کے لیے تھے۔ زمانہ اب کتنا بدل گیا۔ لوگ سر راہ آلو چنے کی چاٹ کھاتے تھے، برگر اور پیزے کا ذکر صرف اخباروں، رسالوں میں پڑھتے تھے۔

کالم نگار کے مطابق پہلے ہم برگر اور پیزے کا ذکر صرف اخباروں اور رسالوں میں پڑھتے تھے، فوٹو: فلکر ڈاٹ کام

زمانہ کتنا بدل گیا۔ کتنی ہی غیر ضروری چیزیں ضروری ہو گئیں۔ یہاں تک کہ معیار زندگی بڑھانے کی دوڑ میں حصہ لینا بھی لازمی ہو گیا۔ کارپوریٹ کلچر اور ایڈورٹائزنگ کی چھا جانے والی صنعت نے زندگی کو یوں گرفت میں لے لیا کہ مڈل کلاس کولہو کا بیل بن گئی ہے اور بیل بھی ایسا کہ دو شفٹوں میں جتا رہتا ہے۔ ضروریات پھر بھی پوری نہیں ہوتیں۔ نیا زمانہ صرف جیب ہی کو نہیں نچوڑ رہا، روایات کو بھی نگل رہا ہے۔ زندگی کو بے رس کر رہا ہے۔
ایسا مسیحا کہاں سے آئے جو زندگی کی فہرست ضروریات کو چھوٹا کرے اور جینے کی خوبصورتی لوٹ آئے۔
  • اردو نیوز میں شائع ہونے والے کالم اور بلاگز واٹس ایپ پر حاصل کرنے کے لیے ’’اردو نیوز کالمز‘‘ گروپ جوائن کریں.

شیئر: