Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اور کیا چاہیے؟ عمار مسعود کا کالم

خان صاحب ایک تقریر سے بین الاقوامی تنازعات حل کرنے کے ہنر سے واقف ہیں (فوٹو: سوشل میڈیا)
خان صاحب نے ہم جیسی ناشکری قوم کو ایک ہی ہلے میں یہ بتا دیا کہ اگر کرم نہ ہوتا تو روپیہ پینتس فیصد سے زیادہ بھی گر سکتا تھا اور ڈالر کی اڑان تین سو سے اوپر بھی جا سکتی تھی۔
خان صاحب ایک بیان سے بازی پلٹنے کا ہنر جانتے ہیں۔ ایک تقریر سے بین الاقوامی تنازعات کا حل کرنے کے ہنر سے واقف ہیں۔ آپ کو اقوام متحدہ والی تقریر تو یاد ہو گی۔ ایسی ولولہ انگیز تقریر کی کہ دشمن نے کشمیر سے بھاگ جانا تھا لیکن  کتنا کرم ہے کہ اس کی نوبت ہی نہیں آئی۔
اب تین سو پچاس ڈیم والی بات کو ہی لے لیجیے کہ اگر خیبر پختونخوا میں تین سو پچاس ڈیم بن جاتے تو زمین سارا پانی چوس لیتی، سیلن اور بدبو ہو جاتی۔ سیم اور تھور سے ارض کے پی بنجر ہو جاتی۔ پھر ایک ارب درخت کہاں لگتے؟ آپ خود سوچیے درخت اب سطح آب پر تو نہیں لگ سکتے نا؟
یہ بھی کتنے شکر و کرم  کی بات ہے کہ پشاور کی بی آر ٹی پر اربوں لگ گئے مگر اس کے باوجود مکمل نہیں ہوئی۔ سارا شہر ایک عظیم الشان گڑھے میں تبدیل ہو گیا مگر ہم جیسے کم عقلوں کو سمجھ نہیں آئی۔ آپ خود سوچیے اگر بی آر ٹی مکمل ہو جاتی تو ٹریفک کی رفتار تیز ہو جانا تھی۔ گاڑیاں زوں زوں کر کے گزر جانا تھیں۔ سیانوں نے ہمیں یہی بتایا ہے کہ تیز رفتاری ہلاکت کا موجب ہوتی ہے۔ ایک منصوبے کی تکمیل نہ ہونے سے کتنی جانیں بچ گئیں۔ کتنی نسلیں سنور گئیں اس حکمت کی طرف کبھی ہمارا دھیان ہی نہیں گیا۔
اب یہی دیکھیے یہ جو پٹرول کی قیمت آسمان سے باتیں کر رہی ہے اس میں قوم کے لیے کیا کیا فائدے پوشیدہ ہیں اس طرف کسی کا دھیان ہی نہیں گیا۔ اگر منطقی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو پٹرول کی قیمتیں بڑھنے سے لوگوں نے گاڑیاں چلانا چھوڑ دیں۔ قریب کا سفر لوگ اب پاپیادہ  ہی طے کرتے ہیں اس سے ایک طرف تو ملک کو دھوئیں اور آلودگی سے نجات ملتی ہے دوسری جانب عوام کی صحت پر اس گرانی پٹرول سے نہایت مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ لوگ تازہ ہوا میں سانس لیتے ہیں ماحول میں بہتری ہوتی ہے اور ملک سرسبز و شاداب ہوتا ہے۔ اور کیا چاہیے؟
اب یہ جو میڈیا میں بے روزگاری وغیرہ کا ہنگامہ ہے اس کے ثمرات بھی عام آدمی کو یک دم سمجھ نہیں آ سکتے۔ لیکن اگر عمیق نگاہ سے دیکھا جائے تو اس سے ملک میں محبت پروان چڑھ رہی ہے۔ وہی نوجوان جو ٹی وی چینلوں پر لڑائی جھگڑے والے پروگرام پیش کرتے تھے اب وہی سارا دن چارپائی پر بیٹھے ’جانو‘ کے ساتھ فیس بک پر محبت کی پینگیں بڑھا رہے ہوتے ہیں۔

کالم کے مطابق پشاور کی بی آر ٹی پر اربوں لگ گئے مگر اس کے باوجود مکمل نہیں ہوئی (فوٹو: سوشل میڈیا)

دوسرا فائدہ یہ ہوا کہ عوام کو لڑائی جھگڑے اور انتشار سے نجات ملی ہے۔ اب ہر طرف امن و آشتی کا ماحول نظر آتا ہے۔ ایک سے لوگ سب چینلوں پر بیٹھے ایک سی باتیں کر رہے ہوتے ہیں۔ اس اتحاد اور یک جہتی کی طرف عوام کا دھیان ہی نہیں گیا، اور یہ میڈیا والے اب بھی ہر وقت حکومتی پابندیوں کا ماتم کر رہے ہوتے ہیں۔
اب مجھے معلوم ہے کہ خان صاحب کے ناقدین اس موقعے پر پچاس لاکھ گھروں کا قضیہ چھیڑ دیں گے کہ باقی تو سب باتیں ٹھیک ہیں لیکن یہ پچاس لاکھ گھروں کے وعدے کا کیا بنا؟ دیکھیں خان صاحب اگر اقوام متحدہ میں تقریر کر سکتے تو ایک ماہ میں ہی پچاس لاکھ گھر بھی بنا سکتے ہیں۔ لیکن نہیں بنائے۔ بھلا کیوں؟  حکمت کی بات تو یہ ہے معیشت دانوں نے ہمیشہ یہ بتایا ہے چیزوں کی کمیابی سے قیمت میں اضافہ ہوتا ہے۔ اگر حکومت پچاس لاکھ گھر بنانے میں جت جاتی تو غریب آدمی کے لیے سیمنٹ بھی مہنگا ہو جاتا اور ریت بجری اینٹ وغیرہ بھی کمیاب ہو جاتی۔ تو غریب کے مفاد کی خاطر اعلان تو کر دیا مگر پچاس لاکھ گھر نہیں بنائے۔
دیکھیں اب اس دور میں  نواز شریف کے نام کی تختی لگنے سے تو رہی۔ تو کیا موٹرویز بغیر تختی کے چھوڑ دیں؟ ایسا کریں گے تو کتنے مسافر رستہ بھول جائیں گے۔ کس کو کیا خبر ہو گی کہ سفر کا نقطہ آغاز کیا تھا اور انجام کب ہوا۔ کتنا سفر کٹ گیا کتنا رستہ رہ گیا ہے؟ اب رہنمائی کے لیے جہاں موقع ملتا ہے وزیرِاعظم صاحب کے نام کی تختی لگا دی جاتی ہے مبادا مسافر رستہ نہ بھول جائیں، کسی کی منزل کھوٹی نہ ہو جائے، کسی کا رستہ گم نہ ہو جائے۔

حالیہ دنوں میں ٹماٹر کی قیمت میں اضافہ ہوا تھا (فوٹو: سوشل میڈیا)

یہ تو چند  چیدہ چیدہ مثالیں ہیں۔ حکومت کا کرم تو بے کراں ہے۔ ٹماٹر تین سو روپے کلو ہوئے تو کیا تین ہزار روپے کلو نہیں ہو سکتے تھے؟ پیٹرول ایک سو چودہ کا ہوا تو ہزار روپے لیٹر بھی تو ہو سکتا تھا۔ بنگلہ دیش کے ایک ٹکے کے دو روپے ہو گئے ہیں۔ صرف اس ایک معمولی سے لسانی انقلاب سے ملک میں کتنے لوگ خط ناداری سے چھلانگ لگا کر اوپر آ گئے ہیں۔ 
تو صاحبان قدر دان اب جب بھی آپ کو حکومت کا کوئی فیصلہ سمجھ نہ آئے تو سمجھ  لیجیے اس میں کوئی کرم پوشیدہ ہے۔ اس پر شکر ادا کریں، سکھ کا سانس لیں اور سمجھ لیں کہ حکومت عوام کی فلاح کے لیے ہر دم کوشاں ہے۔ ہمیں ادراک ہی نہیں کہ  کتنی مصیبتیں ٹل رہی ہیں، کتنی کرم کی بارشیں ہو رہی ہیں۔  تو ناشکرے لوگو صدق دل سے بتاؤ اور کیا چاہیے؟
  • اردو نیوز میں شائع ہونے والے کالم اور بلاگز واٹس ایپ پر حاصل کرنے کے لیے ’’اردو نیوز کالمز‘‘ گروپ جوائن کریں

شیئر: