Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سچ کی اقسام، عبداللہ طارق کا کالم

سابق وزیراعظم نواز شریف ایئر ایمبولینس کے ذریعے لندن پہنچے تھے۔ (فوٹو:سوشل میڈیا)
سچ موسمی پھل کی طرح ہے۔ موسم بدلنے پر نیا آجاتا ہے۔ نئی سرکار، نیا موسم، نیا سچ اور سچ کا معتبر پھل وہی جو سرکاری باغ میں لگے۔ جان و دل عزیز ہوں اور خیریت نیک مطلوب تو اسی سرکاری باغ والے سچ کو ماننا واجب ہے۔ مطلب یہ نہیں کہ سرکاری آموختہ دہراؤ بس ہاں میں سر ہلادو، کافی ہے۔
وزیر خزانہ نے باقاعدہ پریس کانفرنس میں حال ہی میں ایک سچ ریلیز کیا۔ یہ اطلاع انہوں نے شاید بطور ثبوت یہ دی کہ ٹماٹر سترہ روپے کلو فروخت ہو رہے ہیں۔ معیشت اس سے زیادہ اور کیا مستحکم ہوگی۔
 وزیر اطلاعات نے فرمایا کہ غریبوں کو اس دور میں جتنی خوشحالی ملی ہے، پہلے کبھی نہیں ملی تھی۔ 
موسم کا پھل یعنی سچ رنگ بھی بدلتا ہے۔ نواز شریف کی بیماری کو لے لیجیے۔ چند ہفتے پہلے کا سچ یہ تھا کہ بیماری ڈرامہ ہے، پھر اس سچ نے رنگ بدلا تو پتہ چلا کہ نہیں، ڈرامہ نہیں، سچ مچ ان کی حالت تشویش ناک ہے۔ تیسرا روپ یوں بدلا کہ بیماری مشکوک لگتی ہے، تحقیقات کی ضرورت ہے۔
ڈرامہ تھا یا مرض واقعی تشویش ناک تھا، دونوں صورتوں میں نواز شریف تو باہر چلے گئے۔ مہلت جو عدالت سے ملی تھی، وہ تو اب تین ہی ہفتے کی رہ گئی لیکن ان کے ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ علاج میں کئی مہینے لگیں گے۔ عدالتی فیصلے میں ’توسیع‘ لینے کی گنجائش موجود ہے۔ اس دوران ووٹ کی عزت بھی رضاکارانہ چھٹی پر رہے گی۔
ایک ’سچ‘ پر حکومت اور اپوزیشن کا اتفاق ہے۔ یہ کہ ڈیل نہیں ہوئی۔ حکومت کہتی ہے کہ ہمدردی کی بنیاد پر جانے کی اجازت دی، بس مالیتی بانڈ سات ارب روپے کی شرط لگائی، عدالت نے یہ شرط ختم کردی۔ اپوزیشن کہتی ہے، عدالت نے جانے کی اجازت دی۔
بہرحال، بعض مسلم لیگ کے حلقے نواز شریف کی باہر روانگی کو اپنی کامیابی گردانتے اور اس پر خوشی سے پھولے نہیں سماتے نظر آتے ہیں۔ کامیابی کی تعریف بھی موسم کے ساتھ بدلتی رہتی ہے۔ اب دیکھ لیجیے۔ مشرف کے دور میں کہتے تھے، نواز شریف پاکستان آکر دکھائیں گے۔ وہ آئے اور اسے فتح قراردیا۔ اب کہتے تھے، جاکر دکھائیں گے۔

کالم نگار کے مطاقب بعض مسلم لیگ کے حلقے نواز شریف کی باہر روانگی کو اپنی کامیابی گردانتے ہیں۔ (فوٹو:اے ایف پی)

کیا یہ سب مولانا فضل الرحمن کے دھرنے کا نتیجہ ہے؟ یہ خیال عام ہے لیکن محض اتفاق بھی تو ہوسکتا ہے۔ دھرنا بہر حال بخیر گزشت والے انجام سے دوچار ہوا۔ آندھی طوفان کی طرح آیا اور باد صبا کی طرح رخصت ہوا۔ ان کا پلان بی اور سی بھادوں کی برکھا کی طرح ہے، ایک بدلی کبھی ادھر برسی، کبھی ادھر نکل گئی۔ وزیروں کا کہنا ہے کہ مولانا خالی ہاتھ آئے، خالی ہاتھ گئے۔ سپیکر پنجاب اسمبلی کو اس سے اتفاق نہیں۔ وہ کہتے ہیں، انہیں ’امانت‘ سونپ کر رخصت کیا ہے۔ امانت کے اس لفافے میں کیا ہے، کوئی پوری طرح نہیں بتا رہا، بس اتنا پتہ چلا ہے کہ کوئی وعدے وعید کی بات ہے۔ یعنی وعدہ فردا پر دھرنا ٹل گیا۔ اور یہ وعدہ فردا کیا ہے،  پردہ فردا اٹھے گا، تبھی پتہ چلے گا۔

مولانا فضل الرحمان نے وزیراعظم کے استعفیٰ کا مطالبہ کیا تھا (فوٹو:اے ایف پی)

 اگرچہ میڈیا میں ہلکے دھیمے سروں کے ساتھ تبدیلی کی باتیں کی جا رہی ہیں۔ لیکن کیسے، یہ کوئی نہیں بتا رہا۔ چلیے، اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں ہے۔ ہمارے یہاں اکثر انہونی اچانک ہی ہونی ہو جایا کرتی ہے۔ کچھ فضا البتہ پہلے سے غبار آلود ہوا کرتی ہے، وہ لگتا ہے کہ ہو رہی ہے۔ لیکن ہوسکتا ہے، یہ سچ مچ کا غبار نہ ہو، محض غبار نظر ہو۔
وزیراعظم اس گھمبیر فضا میں بھی قومی مسائل پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں جو اچھی بات ہے۔ ایک جلسے میں فرمایا کہ بجلی اس لیے مہنگی ہے کہ ملائشیا سے بجلی بنانے کے لیے جو تیل درآمد کیا جاتا ہے، وہ بہت مہنگا ہے۔
اس ساری رام لیلا سے عوام لا تعلق سے ہیں۔ کسی راہ چلتے کو بتاؤ کہ تبدیلی تبدیل ہونے والی ہے تو وہ خوش ہوتا ہے نہ حیران صرف یہ پوچھتا ہے کہ کیا پھر بجلی سستی ہو جائے گی۔
  • اردو نیوز میں شائع ہونے والے کالم اور بلاگز واٹس ایپ پر حاصل کرنے کے لیے ’’اردو نیوز کالمز‘‘ گروپ جوائن کریں

 

شیئر:

متعلقہ خبریں