Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’مذاکرات کے لیے امریکہ سے رابطہ نہیں‘

افغان طالبان کا کہنا ہے کہ ’اگر امریکہ مذاکرات کے حوالے سے ان کے ساتھ رابطہ کرنا چاہتا ہے تو اس کے لیے باضابطہ چینل موجود ہے۔‘
دوحہ میں طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین نے اردو نیوز کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ ’کابل سے قیدیوں کی رہائی کے حوالے سے امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان ملاقاتیں ہوئی ہیں تاہم مذاکرات کے لیے رابطہ نہیں ہوا۔‘
سہیل شاہین کے مطابق ’اگر امریکہ نے مذاکرات کے لیے رابطہ کیا تو اس کا مثبت جواب دیا جائے گا۔‘
’امن معاہدے پر کام مکمل ہو چکا ہے جس پر صرف دستخط ہونا باقی ہیں۔ ہمارے ساتھ اگر مذاکرات کے لیے رابطہ کیا جائے گا تو ہم مثبت جواب دیں گے۔‘

 

انہوں نے کہا کہ ’امریکہ اور ہمارا براہ راست رابطہ ہے، ہم ایک سال تک مذاکرات کرتے رہے۔ امن معاہدہ بھی مکمل ہو چکا ہے۔ امن مذاکرات کے حوالے سے پاکستان یا دوسرے ممالک اگر کوششیں کر رہے ہیں تو ہم اس کا خیر مقدم کرتے ہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کے بارے میں ہماری پالیسی واضح ہے، امریکہ کے ساتھ اگر امن معاہدہ ہوتا ہے تو اس کے 10 دن بعد بین الافغان مذاکرات شروع ہوں گے جس میں کابل کی حکومت سے بھی مذاکرات ہوں گے۔‘
ان کے بقول ’امریکہ امن معاہدے سے پیچھے ہٹا ہے، امن معاہدے کے حوالے سے اگر امریکہ چاہتا ہے کہ مذاکرات پھر سے شروع کرے تو یہ اس پر منحصر ہیں۔‘

صدر ٹرمپ جمعرات کو افغانستان کے پہلے دورے پر کابل پہنچے تھے (فوٹو: اے ایف پی)

واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جمعرات کو اچانک افغانستان کے دورے پر پہنچے اور اعلان کیا کہ ’امریکہ نے طالبان کے ساتھ دوبارہ مذاکرات شروع کر دیے ہیں اور افغانستان میں اپنی افواج کی تعداد بتدریج کم کرتے رہیں گے۔‘‘  
انہوں نے افغان صدر اشرف غنی سے بگرام ایئر بیس پر ملاقات بھی کی۔
سی این این کے مطابق صدر ٹرمپ نے 2017  میں برسراقتدار آنے کے بعد پہلی بار افغانستان کا دورہ کیا۔ انہوں نے افغانستان میں جنگ بندی کے اعلان سے متعلق طالبان کے ساتھ معاہدے کا معاملہ بھی اٹھایا۔
ٹرمپ نے بگرام ایئر بیس پر بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ’امریکہ طالبان کے ساتھ مذاکرات جاری رکھے گا۔ وہ جنگ بندی سے متعلق معاملات طے کرنا چاہتے ہیں۔‘

صدر ٹرمپ نے ستمبر میں ٹویٹ کے ذریعے طالبان کے ساتھ مذاکرات منسوخ کرنے کا اعلان کیا تھا

صدر ٹرمپ نے واضح کیا ہے کہ ’ہم ان سے ملاقاتیں کریں گے اور ان سے کہیں گے کہ جنگ بندی کا اعلان ضروری ہے۔ طالبان اس کے خواہش مند نہیں تھے لیکن اب وہ جنگ بندی چاہتے ہیں۔ میرے خیال سے جنگ بندی کا معاہدہ ہو سکتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ طالبان ایسا کریں گے۔ ہمیں دیکھنا ہے کہ وہ معاہدے میں کس حد تک سنجیدہ ہیں۔‘
رواں برس ستمبر میں کابل میں ایک امریکی فوجی سمیت 12 افراد کی ہلاکت کے باعث امریکی صدر نے ایک ٹویٹ کے ذریعے کہا تھا کہ انہوں نے امن مذاکرات معطل کر دیے ہیں۔
اسی ماہ امریکی حکام اور افغان طالبان کے درمیان طے کمیپ ڈیوڈ میں ایک خفیہ ملاقات بھی فوری طور پر منسوخ کر دی گئی تھی۔
گذشتہ ہفتے بھی امریکی صدر نے طالبان کے ساتھ دوبارہ مذاکرات شروع کرنے کا اشارہ دیا تھا۔

طالبان وفد نے اکتوبر میں دورہ اسلام آباد کے دوران زلمے خلیل زاد سے ملاقات کی تھی، فوٹو: اے ایف پی

امریکہ کے ساتھ مذاکرات معطل کرنے کے بعد افغان طالبان رہنماؤں نے پہلے پاکستان اور بعد میں ایران کا دورہ کیا۔
افغان طالبان کے ترجمان سہیل شاہین کے ٹوئٹر بیان کے مطابق عبدالاسلام حنفی کی قیادت میں چار رکنی ٹیم نے ایران کا دورہ کیا اور ایرانی وزیرخارجہ جواد ظریف سمیت اعلیٰ عہدیداروں سے ملاقاتیں کیں۔
رپورٹس کے مطابق اکتوبر میں اسلام آباد دورے کے موقع پر افغان طالبان اور امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد کے درمیان مذاکرات کے مستقبل کے حوالے سے بات چیت ہوئی۔
واٹس ایپ پر خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ میں شامل ہوں

شیئر: