Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

فروغ نسیم کی وفاقی کابینہ میں واپسی

انہیں سپریم کورٹ میں اپنی کارکردگی دکھانے کا موقع نہ مل سکا (فوٹو: اے ایف پی)
سپریم کورٹ میں  آرمی چیف کی وکالت کرنے والے بیرسٹر فروغ نسیم نے جمعے کو اپنے استعفے کے صرف تین دن بعد ہی وفاقی وزیر قانون کے طور پر دوبارہ حلف اٹھا لیا ہے۔
انہوں نے سپریم کورٹ میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدتِ ملازمت میں توسیع کے کیس کی پیروی کرنے کے لیے 26 نومبر کو وفاقی وزیرِ قانون کے عہدے سے استعفیٰ دیا تھا۔
ان کے استعفے کے بعد یہ چہ مہ گوئیاں بھی شروع ہو گئی تھیں کہ شاید انہیں سمری اور نوٹیفیکیشن کے معاملے میں قانونی اور تکنیکی کوتاہیوں کی سزا ملی ہے۔
تاہم 26 نومبر کو پریس کانفرنس میں وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید نے واضح کیا تھا کہ فروغ نسیم نے استعفی آرمی چیف کی طرف سے سپریم کورٹ میں بطور وکیل پیش ہونے کے لیے دیا ہے۔
تاہم انہیں اپنے موکل کی جانب سے سپریم کورٹ میں دلائل دینے کی ضرورت ہی پیش نہ آئی اور سوائے تین چار جملوں کے پورے دو دن وہ عدالت میں کچھ نہیں بولے جبکہ معاملے پر تمام تر دلائل اٹارنی جنرل آف پاکستا ن انور منصور خان نے دیے۔
مقدمے کے لیے انہوں نے اپنے موکل سے کتنی فیس وصول کی یہ تو معلوم نہیں ہو سکا تاہم انہیں سپریم کورٹ میں اپنی کارکردگی دکھانے کا موقع نہ مل سکا۔
سماعت کے پہلے دن سپریم کورٹ بار اور پاکستان بار کے ممبران نے عدالت میں ان کے وکالت کے لائسنس پر سوال اٹھا دیا تھا اور انہیں بات نہیں کرنے دی تھی۔
اس پر چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ان سے کہا تھا کہ وہ بدھ کو اپنا مسئلہ حل کر کے آئیں یا معاون وکیل ساتھ لے آئیں تاکہ عدالت کا وقت اسی معاملے پر خرچ نہ ہو۔

فروغ نسیم نے جنرل باجوہ کی وکالت کے لیے استعفیٰ دیا تھا (فوٹو: اے ایف پی)

بدھ کی صبح عدالت  کو بتایا گیا کہ ان کا لائسنس بحال ہوگیا ہے۔ تاہم آرمی چیف کی ملازمت اور توسیع کے قانونی نکات پر آئین، آرمی ایکٹ اور آرمی ریگولیشن کی روشنی میں تمام دلائل اٹارنی جنرل انور منصور خان نے ہی دیے۔
ایک موقعے پر جب  عدالت میں آرمی چیف کی مدت تعیناتی کے حوالے سے نئی قانون سازی کا ذکر ہو رہا تھا تو جسٹس منصور علی شاہ نے بیرسٹر فروغ نسیم کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس معاملے پر کوئی راستہ نکال لیں گے۔
اس موقعے پر فروغ نسیم نے عدالت کو یقین دہانی کروائی کہ چھ ماہ میں قانون سازی کر دی جائے گی اور حکومتی نوٹیفیکیشن کی خامیوں کو بھی دور کر دیا جائے گا۔
یہ واحد موقعہ تھا جب فروغ نسیم عدالت میں بولے۔ جس کے بعد عدالت نے حکومت کو چار یقین دہانیاں کروانے کے لیے وقت دیا اور چند گھنٹوں بعد آرمی چیف کو  مدت ملازمت  میں چھ ماہ کے لیے مشروط توسیع دے دی گئی جس کا اطلاق 28 نومبر سے ہوا۔
سماعت کے لیے جب جب فروغ نسیم عدالت پہنچے صحافیوں نے ان سے مقدمے کی فیس سمیت متعدد سوالات کیے مگر انہوں نے کسی کا جواب نہیں دیا۔
عدالت نے آرمی چیف کی مدت میں توسیع کے نوٹیفیکیشن اور سمری میں متعدد کوتاہیوں کی نشاندھی کی اور یہاں تک کہا کہ نوٹیفیکشن جاری کرنے والوں کی ڈگریاں چیک کی جائیں۔

فروغ نسیم کے مطابق انہیں کسی نے استعفیٰ دینے کے لیے نہیں کہا تھا (فوٹو: پی آئی ڈی)

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے تھے کہ وزارت قانون کی پوری کوشش ہے کہ آرمی کو بغیر کمانڈ رکھا جائے۔ نئی سمری کے مطابق وزیراعظم نے توسیع کی سفارش ہی نہیں کی۔
سفارش نئی تقرری کی تھی لیکن نوٹیفکیشن توسیع کا ہے۔ کیا کسی نے سمری اور نوٹیفکيشن پڑھنے کی بھی زحمت نہیں کی؟
تاہم وزیر قانون فروغ نسیم کی دوبارہ بطور وزیر تعیناتی نے اس تاثر کو رد کر دیا کہ وزیراعظم انہیں اس معاملے میں کسی کوتاہی کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ 
بیرسٹر فروغ نسیم کا تعلق حکومتی اتحادی جماعت ایم کیو ایم سے ہے۔ ان کی دوبارہ تعیناتی کے بعد اب مبصرین سوال کر رہے ہیں کہ سمری اور نوٹیفیکشن کے اجرا کے معاملے میں غلطیوں کا اصل ذمہ دار پھر کون ہے؟

شیئر:

متعلقہ خبریں