13 برس بعد پاکستانی وزیر خارجہ بنگلہ دیش میں، سیاسی رہنماؤں سے ملاقاتیں
پاکستان کے نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار دو روزہ دورے پر بنگلہ دیش پہنچ گئے ہیں جہاں وہ عبوری حکومت کے سربراہ اور دوسرے اعلیٰ حکام سے بات چیت کریں گے۔
پاکستان کے دفتر خارجہ کے مطابق سنیچر کو بنگلہ دیش پہنچنے کے بعد وزیر خارجہ نے نیشنل سٹیزن پارٹی، بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی اور جماعت اسلامی کے وفود سے ملاقاتیں کیں۔
نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ یہ دورہ بنگلہ دیش کی حکومت کی خصوصی دعوت پر کر رہے ہیں۔ اسحاق ڈار ڈھاکہ میں اپنے قیام کے دوران چیف ایڈوائزر محمد یونس اور مشیر برائے امور خارجہ محمد توحید حسین سے ملاقات کریں گے۔
قبل ازیں ڈھاکہ کے حضرت شاہ جلال انٹرنیشنل ایئرپورٹ پہنچنے پر اسحاق ڈار کا بنگلہ دیش کے سیکریٹری خارجہ، بنگلہ دیش میں پاکستان کے ہائی کمشنر عمران حیدر، پاکستان میں بنگلہ دیش کے ہائی کمشنر محمد اقبال خان اور دیگر اعلٰی حکام نے نائب استقبال کیا۔
پاکستان ہائی کمیشن کے افسران بھی استقبال کے لیے موجود تھے۔
عرب نیوز کے مطابق اس دورے کو دونوں جنوبی ایشیائی ممالک کے درمیان تعلقات میں بہتری کی علامت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ یہ 13 برسوں کے دوران کسی بھی پاکستانی وزیر خارجہ کا بنگلہ دیش کا پہلا دورہ ہے۔
بنگلہ دیش میں گذشتہ برس اُس وقت سیاسی ہلچل مچی جب شیخ حسینہ واجد کو عوامی بغاوت کے ذریعے بے دخل کر دیا گیا۔ انڈیا کے قریب سمجھی جانے والی بنگلہ دیشی رہنما معزول ہونے کے بعد نئی دہلی چلی گئی تھیں۔
اس تبدیلی نے پاکستان اور بنگلہ دیش کو تعلقات بحال کرنے کا ایک موقع فراہم کیا اور دونوں ممالک کے اعلیٰ حکام کی مختلف فارمز پر ملاقاتیں ہوئیں۔
ملاقات میں دو طرفہ تعلقات کے ساتھ ساتھ علاقائی اور بین الاقوامی امور پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔
دفتر خارجہ کی جانب سے جمعے کو جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ بنگلہ دیش کی حکومت کی دعوت پر نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار 23 سے 24 اگست 2025 کو بنگلہ دیش کا سرکاری دورہ کریں گے۔
پاکستان کے وزیر تجارت جام کمال چار روزہ سرکاری دورے پر پہلے ہی بنگلہ دیش میں موجود ہیں۔ اس دورے کا مقصد سینیئر حکام اور کاروباری رہنماؤں سے ملاقاتوں کے ذریعے تجارتی تعلقات کو وسعت دینا ہے۔
پاکستان کی سیکریٹری خارجہ آمنہ بلوچ نے بھی رواں برس اپریل کے اوائل میں ڈھاکہ میں دفتر خارجہ سے مشاورت کی تھی جو 15 برسوں میں اس طرح کی پہلی بات چیت تھی۔
اس وقت جاری کردہ ایک بیان میں ان کی بات چیت کو تعمیری قرار دیا گیا تھا جس میں سیاسی، اقتصادی، تجارتی، زرعی، تعلیم اور دفاعی تعلقات کے ساتھ ساتھ علاقائی انضمام اور جنوبی ایشیائی تنظیم برائے علاقائی تعاون (سارک) کی بحالی کا احاطہ کیا گیا تھا۔