Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عراق میں مظاہروں کے باوجود تیل کی برآمدات غیر متاثر

عراق میں تیل کی پیداوار، ترسیل اور برآمدات پر آئل فیلڈز کے نظام کی وجہ سے زیادہ فرق نہیں پڑا۔ فوٹو: اے ایف پی
عراق میں گذشتہ دو مہینے سے جاری مظاہروں نے حکومت کو ہلا کر رکھ دیا ہے، یہاں تک کہ وزیر اعظم عادل عبدالمہدی کو بھی اپنا منصب چھوڑنا پڑا لیکن ملکی معیشت کے مرکزی ستون تیل کی صنعت بغیر کسی بڑے نقصان کے چل رہی ہے۔
 پوری کابینہ کے استعفے سے قبل، وزیر تیل کا کہنا تھا کہ ان کے تمام سٹیشنز، شاخیں، ذخائر اور ترسیلی لائینز کام کر رہی ہیں۔
لیکن اتنی کشیدہ صورتحال میں ایسا کیسے ممکن ہے؟
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق عراق کے مختلف علاقوں میں سڑکیں بند ہیں، یہاں تک کہ ملکی معیشت کے لیے اہم ترین سمجھی جانے والی بندرگاہ خورالزبیر تک کا راستہ بھی بند کر دیا گیا ہے جس کی وجہ سے صبح کے وقت ملازمین کام پر پہنچنے میں کامیاب نہیں ہوتے لیکن بندرگاہوں اور آئل فیلڈز پر رات کی شفٹ میں کام کرنے والے ملازمین صبح آنے والوں کی جگہ رک جاتے ہیں تاکہ کام میں رکاوٹ نہ آئے۔
فیلڈ اور بندرگاہ پر کام کرنے والے ملازمین کا کہنا ہے کہ سڑکوں کے بند ہونے سے 30 ہزار بیرل کے خام تیل کی خورالزبیر سے برآمد رک گئی ہے، کیونکہ وہ عراق کے شمال سے ٹرک کے ذریعے لایا جاتا ہے۔
تاہم 30 ہزار بیرل کی برآمد رکنے سے ان کا کوئی زیادہ نقصان نہیں ہوا ہے کیونکہ عراق روزانہ 30 لاکھ، 60 ہزار بیرل  پانی کے جہاز کے ذریعے برآمد کرتا ہے۔ اور وزارت تیل کے مطابق مظاہروں کی وجہ سے یہ تعداد کم ہو کر اکتوبر میں 30 لاکھ 40 ہزار ہوئی اور نومبر میں 30 لاکھ، 50 ہزار رہی۔
اس کے علاوہ عراق میں تیل کی پیداوار، ترسیل اور برآمدات پر آئل فیلڈز کے نظام کی وجہ سے زیادہ فرق نہیں پڑا۔
عراق کی آئل فیلڈز کچھ ایسی ہے کہ وہاں تیل پیداوار کے عمل کے بعد برآمدات کے مراکز تک پائپ کے ذریعے پہنچایا جاتا ہے، ٹرکوں سے نہیں۔ اسی لیے سڑکوں کا بند ہونا اس صنعت کے لیے زیادہ نقصان کا باعث نہیں بنتا۔

ایک اور وجہ وزارت تیل کی کارکردگی ہے، جس نے ملکی ضروریات کے لیے تیل کو ذخیرہ کر کے رکھ لیا تھا۔ فوٹو: اے ایف پی

تیل  کے ٹینکروں کو مانیٹر کرنے والے ادارے کلپر ڈیٹا کے تجزیہ کار نوام ریدان کا کہنا ہے ’اسی لیے (عراق کی تیل کی صنعت) پر زمین پر ہونے والے مظاہروں کا براہ راست اثر نہیں پڑتا۔‘
ایک اور وجہ وزارت تیل کی کارکردگی ہے، جس نے ملکی ضروریات کے لیے تیل کو ذخیرہ کر کے رکھ لیا تھا۔
وزارتِ تیل کے ملازمین نے بھی ملک کے بیشتر حصوں میں ہونے والے مظاہروں میں حصہ نہیں لیا جبکہ حکومت کی طرف سے ملازمت پر رکھے جانے والے اساتذہ، ڈاکٹرز اور انجنئیرز ان دو ماہ میں ہڑتال پر جاتے رہے ہیں۔
عراق آئل فورم کے لیے کام کرنے والی ربع ہساری کا کہنا ہے، ’عراق کی ساری وزارتوں میں سے تیل  کی صنعت میں کام کرنے والے عملے کو سب سے زیادہ اچھی تنخواہ دی جاتی ہے۔‘
اسی لیے وہ اپنی ملازمت کو نقصان میں نہیں ڈالنا چاہتے۔

شیئر: