Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایران، عراق اور لبنان میں نیا منظرنامہ

تینوں ممالک میں فکری تبدیلی کے آثار دیکھ رہے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)
ایران، عراق اور لبنان میں رونما ہونے والے تین بڑے واقعات پر غور کرنے سے یہ بات محسوس ہو رہی ہے کہ یہ اقتدار کے ناکام نظام اور برے اقتصادی حالات سے نجات حاصل کرنے کی کوشش سے کہیں زیادہ ہیں۔ 
تہران، بصرہ اور بیروت کی سڑکوں پر برہم شہری نئی فکر کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ یہ نوجوان ہیں۔ یہ لوگ قدیم فکر و نظر رکھنے والے حکمراں سیاسی نظام کے مخالف ہیں۔
عراق کا بھی یہی حال ہے جہاں قدرے جدید ادارے اور سسٹم قائم ہو چکے ہیں تاہم ان کے کرتا دھرتا تہران اور بیروت میں براجمان لوگوں سے کافی ملتے جلتے ہیں۔

مظاہرین روٹی او رملازمت سے کہیں زیادہ سماجی تبدیلی چاہتے ہیں (فوٹو: روئٹرز) 

تینوں ممالک میں ناکامی اور بدعنوانی کی مخالفت اپنی جگہ تاہم تینوں ممالک میں انقلابات کا منظر نامہ ظاہر کر رہا ہے کہ نوجوان مظاہرین روٹی اور ملازمت سے کہیں زیادہ سماجی تبدیلی چاہتے ہیں۔
یہ نوجوان انتہا پسندی کے خلاف علم بلند کیے ہوئے ہیں۔ یہ سماجی کھلا پن چاہتے ہیں۔ ان ممالک میں لبرل ازم کی روح خطے میں عصری تبدیلیوں سے ہم آہنگ ہو رہی ہے۔
ایران میں 60 ملین لوگ ایسے ہیں جن کی عمریں 35 برس سے کم ہیں۔ انہیں قم اور تہران کے محلوں میں رہنے والوں سے کچھ لینا دینا نہیں۔
یہی منظر نامہ لبنان اور عراق میں بھی نظر آرہا ہے۔ جہاں مظاہرین مخصوص طبقے کے تسلط کے خلاف کھل کر بول رہے ہیں۔
مظاہرین موجودہ صورتحال کے خلاف تصاویر، نعرے اور بینرز اٹھائے ہوئے ہیں۔ تینوں ممالک کے سیاستدان اور ریاستی ادارے ایک جیسے ہیں۔ وہاں کے حکمران مسائل کا اقتصادی حل دینے میں ناکام ہوچکے ہیں۔
نوجوانوں کو آزادی سے محروم کیے ہوئے ہیں۔ انہیں فطری انداز میں اپنی زندگی گزارنے سے روکے ہوئے ہیں۔

نوجوان انتہا پسندی کے خلاف علم بلند کیے ہوئے ہیں (فوٹو: روئٹرز) 

سوال یہ ہے کہ کیا بیروت میں مظاہرین کو اس بات کا کوئی علم ہے کہ زمین پر ان کے مقابل لوگ کس قدر طاقتور ہیں؟ کیا یہ لوگ بندوق برداروں سے خوفزدہ نظر آ رہے ہیں۔
غالب گمان یہی ہے کہ اس کا جواب نفی میں ہوگا ۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ان کے حریف تبدیلی کی ان کی خواہش کو یکسر نظر انداز کر رہے ہیں۔
ہمارا مشاہدہ بتا رہا ہے کہ مظاہرین سوجھ بوجھ کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ یہ لوگ ملک پر قابض مکار طاقتوں کی خواہش پر کسی بھی گڑھے میں گرنے والے نہیں۔
حزب اللہ اور ایوان صدارت انہیں اسی طرح کے کسی مخمصے میں ڈالنے کے در پے ہیں۔

مظاہرین مخصوص طبقے کے تسلط کے خلاف کھل کر بول رہے ہیں (فوٹو: روئٹرز) 

موجودہ صورتحال سے فائدہ اٹھانے والوں کی خواہش بھی یہی ہے۔ ان کی کوشش ہے کہ برہم عناصر مزاحمت کا علم بلند کر دیں۔ یہ کوئی ایسی حرکت کریں جس پر انہیں غدار وطن کہا جا سکے۔ ان کا اسرائیل کے ساتھ کوئی رشتہ ناتہ جوڑ دیا جائے تاکہ امت کے دشمن کی حیثیت سے ان کی بیخ کنی کی راہ ہموار ہو جائے۔
ایران میں معاملہ اور زیادہ گمبھیر ہے۔ ایران کے تمام نوجوانوں کو حکمران نظام کے تقدس کا سبق گھٹی میں پلایا گیا ہے۔ یہ شاہ ایران کی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد اپنے اقتدار کو دائمی بنانے کے جذبے سے کیا گیا تھا۔
نوجوان مظاہرین مغربی لبرل جمہوریت کے دلدادہ نہیں البتہ وہ جمہوریت کے حق میں آواز بلند کررہے ہیں۔ منظر نامہ بتا رہا ہے کہ ایران، عراق بلکہ لبنان تک میں مذہبی ماڈل ناکام ہو چکا ہے۔ 
شاہ ایران کے زمانے میں مالدار ہی نہیں پورے علاقے کا قائد بھی تھا پھر یہ ملک خطے میں سب سے زیادہ بحران پیدا کرنے والا ملک بن گیا۔ ایسا اقتدار پر قابض مخصوص طبے کی وجہ سے ہوا۔
ان لوگوں نے ایران میں المناک حالات پیدا کرنے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ سرحد پار کرکے پڑوسی ملک عراق کو بھی اپنے جال میں پھنسا لیا۔
ایران کے حکمرانوں نے عراقی پارلیمنٹ اور وہاں کے صدارتی نظام کو عام سیاستدانوں پر اثرانداز ہونے اور انہیں قابو کرنے کے لیے استعمال کیا۔

لگ یہی رہا ہے کہ مظاہروں کا دائرہ معاشی تبدیلیوں تک محدود نہیں ہوگا (فوٹو: اے ایف پی)

لبنان میں فرقہ پرست طاقتوں نے قدیم لبنانی فرانسیسی کالونی کو ترکے میں حاصل کر لیا۔ وہاں کے شہری اپنی ثقافت اور اپنی مذہبی وابستگیوں میں اختلاف کے باوجود تبدیلی اور موجودہ حکمرانوں سے نجات چاہتے ہیں۔
مظاہرین کے گانے اور ان کے گیت لبنانی سیاسی رہنماﺅں کو کچوکے لگا رہے ہیں۔ انہیں سمجھ نہیں آرہا ہے کہ اس صورتحال سے کس طرح نمٹیں۔ 
مظاہرین امریکہ کا پرچم اٹھائے ہوئے ہیں اور نہ ہی اسرائیلی جھنڈا ہاتھوں میں لیے ہوئے ہیں اور نہ ہی وہ کسی فرقے کے خلاف کسی فرقے یا کسی رہنما کے خلاف نعرے بازی کررہے ہیں۔
ہم تینوں ممالک میں فکری تبدیلی کے آثار دیکھ رہے ہیں۔ لگ یہی رہا ہے کہ مظاہروں کا دائرہ معاشی تبدیلیوں تک محدود نہیں ہوگا۔
واٹس ایپ پر سعودی عرب کی خبروں/بلاگز کے لیے ”اردو نیوز“ گروپ جوائن کریں

شیئر: