Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مبینہ سنگساری: ’بچی کے سر، ناک اور چہرے پر زخم تھے‘

دوران تفتیش بچی کے والد علی بخش کا کہنا ہے کہ اس کی موت پہاڑی تودہ گرنے سے ہوئی۔ (فوٹو: اردو نیوز)
سندھ کے ضلع دادو کے گاؤں واہی پندھی میں کم سِن بچی کو مبینہ طور پر سنگسار کیے جانے کے واقعے کی تفتیش کے سلسلے میں عدالت کے حکم پر بدھ کو میڈیکل بورڈ کی نگرانی میں قبر کشائی کی گئی۔
جوڈیشنل مجسٹریٹ کی موجودگی میں میڈیکل بورڈ نے مقتولہ کی قبر کشائی کر کے نعش سے نمونے حاصل کرنے کے بعد اسے واپس دفنا دیا ہے۔
قبر کشائی کے اختتام پر پولیس سرجن حیدر آباد ڈاکٹر بنسی دھار اور میڈیکل بورڈ کے رکن ڈاکٹر وحید شیخ کا کہنا تھا کہ ابتدائی طور پر ایسے شواہد نہیں ملے جن سے سنگسار ہونا ثابت ہو۔ 

 

میڈیکل ایگزامینیشن کے لیے نعش سے نمونے اکھٹے کر لیے گئے ہیں جس کی مفصل رپورٹ دو ہفتے کے اندر پیش کردی جائے گی۔
ڈاکٹر وحید شیخ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ابتدائی طور پر متوفی کو سنگسار کرنے کے حوالے سے کچھ نہیں کہہ سکتے۔ ایسے شواہد نہیں ملے۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ کمسن بچی کے سر کے پیچھے، ناک اور چہرے پر زخم تھے اور جبڑا بھی ٹوٹا ہوا تھا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ چار دنوں کے اندر پوسٹ مارٹم رپورٹ جاری کی جائے گی۔
میڈیکل بورڈ کا کہنا ہے کہ نعش کی شناخت کے لیئے ڈی این اے بھی کرایا جائے گا تا کہ پتا چلے کہ یہ گل سماں کی ہی نعش تھی یا نہیں۔
 قبر کشائی کے عمل کا آغاز بدھ کو 11 بجے کے بعد شروع ہوا اور اس موقع پر جوڈیشنل مجسٹریٹ آغا عمران پٹھان بھی موجود تھے۔
قبر کشائی کے لیے میڈیکل ٹیم دادو کے نواحی گاؤں بدھ کی صبح پہنچی۔ قبر کشائی کے لیے پولیس نے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج دادو کو درخواست جمع کروائی تھی، جس کے بعد عدالت نے پولیس کو دس دن کا وقت دیتے ہوئے میڈیکل بورڈ تشکیل دینے کا بھی کہا تھا جو بچی کا پوسٹ مارٹم اور میڈیکل معائنے سے موت کی وجہ کا تعین کرے گا۔
دوسری جانب عدالت نے پولیس حراست میں موجود بچی کی والدہ لیلیٰ رند کا دو روزہ جوڈیشنل ریمانڈ منظور کر لیا ہے، جب کہ دوران تفتیش بچی کے والد علی بخش کا کہنا ہے کہ اس کی موت پہاڑی تودہ گرنے سے ہوئی۔  
سندھ اور بلوچستان کی پہاڑی سرحد پر واقع واہی پندھی گاؤں میں مبینہ طور پر جرگے کے فیصلے میں 10 سالہ بچی گل سماں کو کاری قرار دیا تھا جس کے بعد اسے سنگسار کر کے پہاڑی کے دامن میں دفنا دیا تھا۔ واقعے کی اطلاع بچی کا جنازہ پڑھانے والے مولوی نے دی جس کے بعد پولیس نے کارروائی کر کے بچی کے والدین اور مولوی سمیت چار افراد کو گرفتار کر کے ایف آئی آر درج کرلی تھی۔

واہی پندھی گاؤں میں مبینہ طور پر جرگے کے فیصلے میں 10 سالہ بچی گل سماں کو کاری قرار دیا تھا (فائل فوٹو: سوشل میڈیا)

واقعے کی خبر چلنے کے بعد سوشل میڈیا پر متعدد افراد کی جانب سے الزام لگایا جا رہا تھا کہ یہ جرگہ پی ٹی آئی رہنما سردار یار محمد رند کے بیٹے بیبرک رند کی سربراہی میں منعقد ہوا تھا، اور کاری کر کے سنگسار کرنے کا مبینہ فیصلہ ان کا تھا۔ بیبرک رند نے الزام کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے اسے پیپلز پارٹی رہنماؤں کی سازش قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جن دنوں یہ واقعہ رونما ہونے کا کہا جا رہا ہے وہ اس علاقے میں تھے ہی نہیں۔
سندھ کے وزیرِ اطلاعات سعید غنی نے صوبائی ایوان میں گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ پولیس کو واقعے کی اطلاع سوشل میڈیا پر سماجی کارکنوں کی جانب سے پوسٹس سے ملی جس کے بعد جائے وقوع کا دورہ کر کے جنازہ پڑھانے والے امام کو حراست میں لیا گیا جس نے بچی کی قبر کی نشاندھی کی۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ابتدائی تفتیش میں ایسی کوئی بات سامنے نہیں آئی جس سے لگے کے بچی کو کاری قرار دے کر سنگسار کیا گیا ہے۔
قتل ہونے والے  بچی گل سما کے والد علی بخش اور جنازہ پڑھنے والے مولوی ممتاز کو ریمانڈ کے لیے سول عدالت میں پیش کیا گیا، عدالت نے 3 روزہ ریمانڈ منظور کرکے ملزمان کو پولیس کے حوالے کر دیا گیا۔
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں

شیئر: