Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’آج میرا سر فخر سے بلند ہو گیا ہے‘

صاحبِ عصریٰ پاکستان کی تیز ترین خاتون اتھلیٹ بھی رہ چکی ہیں
پنجاب کے ضلع فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے ایک امام مسجد کی بیٹی صاحب عصریٰ نے نیپال میں جاری 13ویں ساؤتھ ایشین گیمز کے اتھلیٹکس مقابلوں میں کانسی کا تمغہ حاصل کیا ہے۔
صاحب عصریٰ نے اردو نیوز سے ٹیلی فونک انٹرویو میں بتایا کہ ’بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی نمائندگی کرنا میرا اور میرے والدین کا خواب تھا۔‘
صاحبِ عصریٰ نے جمعرات کو ہونے والی خواتین کی 400 میٹرز ریس میں مطلوبہ فاصلہ صرف 54.58 سکینڈز میں طے کیا تھا۔
ان کے مقابلے میں سری لنکا کی دلشی ماہیشا نے 53.40 سیکنڈز میں 400 میٹر کا فاصلہ طے کر کے طلائی تمغہ جیتا جبکہ عصریٰ نے مالدیپ، بنگلہ دیش، سری لنکا اور انڈیا کی خاتون اتھلیٹس کو شکست دی۔

تمغہ جیتنے تک کا سفر قطعاً آسان نہیں تھا: صاحب عصریٰ

نیپال کے دارالحکومت کھٹمنڈو میں یکم دسمبر سے 13ویں ساؤتھ ایشین گیمز 2019 جاری ہیں جن میں پاکستان کے علاوہ چھ ممالک سے تعلق رکھنے والے ایتھلیٹس حصہ لے رہے ہیں۔
21 سالہ صاحبِ عصریٰ اس سے قبل پاکستان کی تیز ترین خاتون اتھلیٹ بھی رہ چکی ہیں۔ 2018 کی قومی اتھلیٹکس چیمپئن شپ میں انہوں نے 100 میڑ کا فاصلہ محض 11.60 سیکنڈز میں طے کر کے یہ اعزاز اپنے نام کیا تھا۔
ساؤتھ ایشین گیمز میں کانسی کا تمغہ جیتنے کے بعد اردو نیوز نے بات کرتے ہوئے صاحب عصری کا کہنا تھا کہ ’میں نے ساؤتھ ایشین گیمز میں کامیابی کے لیے بہت محنت کی تھی جو بالآخر رنگ لے آئی۔‘

صاحبِ عصریٰ کے والد قاری عالم خان ایک جامع مسجد میں امامت کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں

بین الاقوامی سطح پر پاکستان کے لیے یہ صاحبِ عصریٰ کا پہلا تمغہ ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’میرے لیے یہ بہت بڑا دن ہے، آج میں بہت زیادہ خوش ہوں۔‘
صاحبِ عصریٰ کے بقول ایک غریب گھرانے سے نکل کر بین الاقوامی سطح پر ملک کی نمائندگی کرنے اور تمغہ جیتنے تک کا سفر قطعاً آسان نہیں تھا لیکن یہ سب ان کی محنت اور ان کے والدین کی دعاؤں کا نتیجہ ہے۔
صاحبِ عصریٰ کے والد قاری عالم خان گذشتہ 30 سال سے فیصل آباد کے علاقے ہجویری ٹاؤن کی جامع مسجد میں امامت کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں لیکن انہوں نے کبھی بھی اپنی بیٹیوں کو کھیلوں میں حصہ لینے سے نہیں روکا۔
انہوں نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے اپنے ردعمل کا اظہار کیا کہ ’میں آج بہت خوش ہوں، میں یہ خوشی لفظوں میں بیان نہیں کر سکتا۔ میری بیٹی نے میرا سر فخر سے بلند کر دیا ہے۔ ہم غریب لوگ ہیں اور بڑی مشکلات کے بعد یہاں تک پہنچے ہیں۔‘
قاری عالم کے پاس ذاتی گھر نہیں ہے، وہ تین دہائیوں سے مسجد کے اوپر بنے دو کمروں کے مکان میں رہائش پذیر ہیں۔ صاحبِ عصریٰ کو کھیلوں میں حصہ لینے کی اجازت دینے کے باعث گذشتہ برس مقامی لوگ ان کے خلاف فتویٰ لے آئے تھے اور انہیں مسجد سے نکالنے کا مطالبہ کیا تھا۔

بین الاقوامی سطح پر پاکستان کے لیے یہ صاحبِ عصریٰ کا پہلا تمغہ ہے

قاری عالم نے بتایا کہ ’بدقسمتی دیکھیں کہ میں یہاں اپنی بیٹی کی کامیابی کے بارے میں کسی کو نہیں بتا سکتا، کسی کو بتاؤں گا تو میرے لیے مسئلہ بن جائے گا۔ مقامی دکاندار اور رہائشی مجھے مسجد سے نکالنے کی باتیں کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ امام کی بیٹی ٹی وی پر آتی ہے، دوڑ میں حصہ لیتی ہے، اس کے پیچھے ہماری نماز قبول نہیں ہوتی، اسے یہاں سے نکالو۔ میرے پاس کوئی گھر نہیں ہے، مسجد کے گھر میں نہیں رہیں گے تو کہاں جائیں گے؟‘
قاری عالم کا کہنا ہے کہ ’صاحب عصری بہت محنت کرتی ہے، ہمارے لیے وہ بیٹوں سے بھی بڑھ کر ہے۔ میں اسے ہمیشہ کامیاب ہوتا دیکھنا چاہتا ہوں۔ میں تمام والدین کو یہ کہنا چاہتا ہوں کہ وہ اپنی بیٹیوں کی صلاحتیوں کو دبانے کے بجائے انہیں آگے نکلنے کا موقع دیں۔‘
پاکستان کے لیے کانسی کا تمغہ جیتنے پر صاحب عصریٰ ان تمام لوگوں کی مشکور ہیں جنہوں نے یہاں تک پہنچنے میں ان کی مدد کی۔
انہوں نے بتایا کہ ’میں انٹرلوپ فیکٹری سے تعلق رکھنے والے مصدق صاحب کی بہت مشکور ہوں، انہیں میری گیم کے بارے میں زیادہ علم نہیں تھا لیکن پھر بھی انہوں نے میری مالی مدد کی اور میرے لیے یہاں تک پہنچنا ممکن بنایا۔‘ 

شیئر: