Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’یہ بل ہندوتوا سوچ کو مسلط کرنے کی کوشش ہے‘

پاکستان کے دفتر خارجہ کے مطابق انڈین فیصلہ مذہبی لحاظ سے تعصب پر مبنی اور امتیازی ہے (فوٹو: سوشل میڈیا)
پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ لوک سبھا کی جانب سے شہریت بل کی منظوری کی شدید مذمت کرتے ہیں۔
عمران خان کے ٹویٹ کے مطابق یہ قانون سازی تمام عالمی حقوق  کے اقدار اور پاکستان کے ساتھ دوطرفہ تعلقات کی خلاف ورزی ہے۔
ان کے مطابق یہ قانون سازی آر ایس ایس ہندو راشٹریہ کا حصہ ہے، جس کا پروپیگنڈا وزیراعظم نریندر مودی کی فاشسٹ حکومت کرتی ہے۔
پاکستان کے دفتر خارجہ نے بھی انڈیا کی پارلیمان کی جانب سے پیر کو منظور کی جانے والی تارکینِ وطن کی شہریت سے متعلق ترمیمی بل کو  تعصب پر مبنی قرار دیا ہے۔
خیال رہے پیر کو انڈین پارلیمان کے ایوانِ زیریں نے 12 گھنٹے طویل گرما گرم بحث کے بعد تارکینِ وطن کی شہریت سے متعلق ترمیمی بل کثرتِ رائے سے منظور کر لیا تھا۔ بل کے حق میں 311 ووٹ آئے جبکہ اس کی مخالفت میں 80 ووٹ پڑے۔ 
دفتر خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر محمد فیصل نے بیان میں کہا ہے کہ  قانون سازی کے مطابق ان ممالک کے مسلمان شہریوں کو انڈین شہریت نہیں ملے گی جبکہ صرف ہندوؤں کو شہریت دی جائے گی۔ ’حالیہ قانون سازی عالمی انسانی حقوق کی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔‘
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ انڈین فیصلہ مذہبی لحاظ سے تعصب پر مبنی اور امتیازی ہے۔ ’یہ فیصلہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان دو طرفہ معاہدوں کی بھی خلاف ورزی ہے۔‘
ترجمان کے مطابق اس فیصلے سے انڈیا میں اقلیتوں کے حقوق اور سکیورٹی پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔ یہ قانون سازی انتہاپسندی اور ہندوتوا سوچ کو خطے میں مسلط کرنے کی کوشش ہے۔
’انڈیا کی یہ کوشش ہمسایہ ممالک میں مذہب کی بنیاد پر دخل اندازی ہے۔‘
ترجمان نے کہا کہ پاکستان اس فیصلے کو مسترد کرتا ہے۔ ’گجرات میں ہزاروں مسلمانوں کا قتل، سمجھوتہ ایکسپریس سانحہ اور گائے ذبح کرنے پر ہجوم کا تشدد انتہا پسند ذہنیت کا نتیجہ ہے۔‘

حیدر آباد سے رکنِ پارلیمان اسد الدین اویسی نے بل کی مخالفت کی اور اس کی کاپی پھاڑ دی (فوٹو: سوشل میڈیا)

پاکستان کے دفتر خارجہ کے ترجمان نے مزید کہا کہ کشمیر میں نو لاکھ انڈین فوجی نہتے کشمیریوں پر ظلم ڈھا رہے ہیں۔ ان کے مطابق حالیہ قانون سازی نے ایک مرتبہ پھر انڈیا کی جمہوریت اور سیکیولرزم کے دعوے کو بے نقاب کیا ہے۔ ’فیصلہ آر ایس ایس اور بی جے پی کے مسلمانوں کے خلاف گٹھ جوڑ کو بے نقاب کرتا ہے۔‘
عالمی مذہبی آزادیوں پر امریکی وفاقی  کمیشن نے مطالبہ کیا ہے کہ انڈیا کے پارلیمان کے دونوں ایوانوں سے اگر تارکینِ وطن کی شہریت سے متعلق بل کو موجودہ شکل میں منظور کیا جاتا ہے تو  امریکی حکومت وزیر داخلہ امیت شاہ اور دوسرے لیڈران پر پابندیاں عائد کریں۔
انڈین خبر رساں ادارے پریس ٹرسٹ آف انڈیا کے مطابق کمیشن نے شہریت سے متعلق ترمیمی بل کو ’غلط سمت میں ایک خطرناک قدم‘ قرار دے دیا۔
پیر کو جاری بیان میں کمیشن نے کہا ہے کہ شہریت بل میں انڈین شہریت دینے کا جو طریقہ کار تجویز کیا گیا ہے اس میں خاص طور پر مسلمانوں کو باہر رکھا گیا ہے۔ بل  میں مذہبی بنیادوں پر شہریت دینے کا قانونی طریقہ کار  تجویز کیا گیا ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ شہریت بل انڈیا کی سیکولر اکثریت کی تاریخ اور انڈیا کے آئین کے خلاف ہے جو کہ تمام شہریوں کے قانون کے سامنے مذہب سے قطع نظر برابری کی ضمانت دیتا ہے۔

انڈیا کے آسام میں بھی شہریت اور قومیت کا مسئلہ نیا نہیں ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

امریکی کمیشن کا کہنا ہے کہ مذکورہ بل کے لوک سبھا سے منظوری پر ان کو شدید تشویش ہے۔
’اگر شہریت بل کو دونوں ایوانوں سے منظور کیا جاتا ہے تو امریکی حکومت کو انڈین وزیر داخلہ امیت شاہ اور دوسرے رہنماؤں پر پابندیاں لگانی چاہیے۔‘
خیال رہے نئے قانوں کے تحت بنگلہ دیش، پاکستان اور افغانستان سے انڈیا آنے والے ہندو، بودھ، جین، سکھ، مسیحی اور پارسی مذہب سے تعلق رکھنے والے غیر قانونی تارکین وطن کو شہریت دی جائے گی لیکن اس میں مسلمانوں کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔
جب پیر کو وزیرِ داخلہ امت شاہ نے ایوان میں بل پیش کرنے کی اجازت چاہی تو حزبِ اختلاف کے اراکین نے ایوان میں خوب ہنگامہ برپا کیا۔
حیدر آباد سے رکنِ پارلیمان اسد الدین اویسی نے بل کی مخالفت کی اور اس کی کاپی پھاڑ دی۔ اسد الدین اویسی کا کہنا تھا کہ بل میں مسلمانوں کو شامل نہ کرنے سے انھیں کوئی فرق نہیں پڑے گا مگر یہ بتایا جائے کہ مسلمانوں کے خلاف اتنی نفرت کیوں ہے؟ انھوں نے الزام عائد کیا کہ حکمران جماعت بی جے پی کی جانب سے اس بل کو لانے کا مقصد بنگالی ہندوؤں کے ووٹ حاصل کرنا ہے۔

لوک سبھا میں بل کے حق میں 311 ووٹ آئے جبکہ اس کی مخالفت میں 80 ووٹ پڑے (فوٹو: سوشل میڈیا) 

اس نئے قانون کے تحت کسی بھی شخص کو انڈین شہریت کے لیے کم از کم 11 سال کی مدت ہندوستان میں گزارنی ضروری ہے لیکن اس ترمیمی بل میں پڑوسی ممالک پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش کی اقلیتی برادری کو چھوٹ دی گئی ہے اور 11 سال کی مدت کو کم کرکے چھ سال کر دیا گيا ہے۔
بل کو عام طور پر مسلم مخالف بل کہا جا رہا ہے اور اسے انڈین آئین کی روح کے منافی قرار دیا جا رہا ہے۔ اس بل میں کئی شمال مشرقی ریاستوں کو استثنیٰ حاصل ہے تاہم آسام، میگھالیہ، منی پور، میزورم، تریپورہ، ناگالینڈ اور اروناچل پردیش میں اس ترمیمی بل کی شد و مد کے ساتھ مخالفت کی جا رہی ہے۔  خیال رہے کہ یہ ریاستیں بنگلہ دیش کے قریب ہیں اور بہت سے لوگ وہاں سے نکل کر ان ریاستوں میں آباد ہوئے ہیں۔

شیئر: