Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اورنج لائن ٹرین کا افتتاح اور نئے پاکستان کی برانڈنگ

لاہور میں اورنج لائن ٹرئن کی آزمائشی سروس کا منگل کو آغاز ہوا۔ جب دن بارہ بجے ڈیرہ گجراں کے قریب اورنج میٹرو ٹرین کے سٹیشن نمبر ایک پر پہنچا تو خیرمقدمی بینر پر وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی تصویر اور جگہ جگہ میٹرو ٹرین کی قد آدم تصاویر پر نیا پاکستان لکھا ہوا تھا۔
اس بات کا اندازہ تو تھا کہ اس منصوبے کو سابقہ حکومت کا کارنامہ کبھی بھی نہیں بتایا جائے گا لیکن اورنج ٹرین پر نئے پاکستان کی برانڈنگ کرنا بہرحال ایک پیچیدہ سیاسی مسئلہ معلوم ہوا۔ کیونکہ یہی وہی اورنج ٹرین ہے جسے تحریک انصاف کی جانب سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور ایک رٹ پیٹیشن کے ذریعے اس منصوبے کو 22 مہینے کی تاخیر بھی ہوئی۔
ایک طرف تو منصوبے پر نئے پاکستان کی سرخی لگائی گئی جبکہ دوسری طرف افتتاح کے لیے پنجاب کے وزیر ٹرانسپورٹ جہانزیب خان کچھی اور وزیرِ اطلاعات فیاض الحسن چوہان کو چنا گیا۔
دونوں وزیر سپاٹ چہروں کے ساتھ 20 منٹ کی تاخیر سے سٹیٹشن نمبر ایک پہنچے اور جبکہ ٹرین مقررہ وقت پر پلیٹ فارم پر پہنچ چکی تھی۔
پروگرام یہ تھا کہ سٹیشن نمبر ایک سے صحافیوں اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کو رائیونڈ روڈ پر آخری سٹیشن علی ٹاون تک اورنج لائن ٹرین کا سفر کروایا جائے گا اور وہیں افتتاحی تقریب منعقد ہوگی۔

صوبہ پنجاب کے وزیر اعلی سمیت دیگر بڑی شخصیات نے اس کی افتتاحی تقریب میں شرکت تک نہیں کی: فوٹو اردو نیوز

وزرا پہنچ تو گئے لیکن ان کے چہروں کو سختی واضع تھی اور قیاس یہی ہے کہ جس منصوبے کی ماضی میں مخالفت کرتے رہے آج اسی کے قصیدے پڑھنے تھے۔ ٹرین میں سوار ہوئے اور ایک بڑی تعداد چینی شہریوں کی نظر آئی معلوم کرنے پر پتا چلا کہ اس پراجیکٹ کے اختتامی مراحل کی چین کا سرکاری ریل کا ادارہ کرے گا اور یہ سب اسی کے انجینئرز ہیں۔ ایک چینی انجینئرز نے بتایا کہ ابھی آزمائشی طور پر اورنج ٹرین چلائی گئی ہے جو عوام کے لیے مارچ تک کھولی جائے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’سب سے پہلے تو اس کا ڈیجیٹل سگنلنگ نظام کا ٹیسٹ ہو گا۔ کیونکہ کہ کئی ٹرینز ایک وقت پر پٹڑی پر موجود ہوں گی اور ان کو جی پی ایس سسٹم کے ذریعے ایک دوسرے سے محفوظ رکھا جائے گا۔ ایک ٹرین سے دوسری ٹرین کے درمیان فاصلہ سگنلنگ نظام کے ذریعے خود کار طریقے سے کنٹرول ہو گا۔‘
اس کے علاوہ آن لائن ٹکٹ کے نظام کو بھی ٹرینوں کی آمدورفت سے منسلک کیا گیا ہے ٹکٹ کی خریداری کے بعد اسی مقناطیسی ٹکٹ کے ذریعے ہی مسافر پلیٹ فارم میں داخل ہو سکیں گے۔
چینی انجینیر کے مطابق ایک اور مرحلہ ٹرین کے پلیٹ فارمز پر ایسی جگہ کھڑے ہونے سے متعلق ہے جہاں پلیٹ فارم اور ٹرین کے خود کار دروازے ایک دوسرے کے سامنے ہوں کیونکہ یہ بات براہ راست مسافروں کی حفاظت سے متعلق ہے۔
اس کے علاوہ ایک نظام اگلے آنے والے سٹیشن کی دوری اور وقت کے باہمی رابطے سے متعلق ہے۔ ہر ٹرین لمحہ با لمحہ مسافروں کو اگلے اسٹیشنز سے دوری اور وقت سے اندر اور باہر لگی سکرینز کے ذریعے ایک خود کار نظام کے ذریعے آگاہ کر رہی ہو گی۔ اسی طرح یہی معلومات موبائل ایپلیکیشز اور گوگل پر بھی موجود ہوں گی۔ لی یوانگ کے مطابق یہ سب نظام آپس میں جتنے مربوط ہوں گے اور کسی قسم کے شک و شبہ سے بالاتر ہوں گے تو ہی ٹرین کو عام مسافروں کے لیےکھولا جائے گا۔
اورنج لائن ٹرین کے پہلے آزمائشی سفر میں ایک بات زیادہ دلچسپ اور جذباتی کرنے والی تھی کہ تمام چینی اپنے موبائل فونز پر تصاویر اور ویڈیوز بنا رہے تھے۔ ایک چینی اہلکار جنہوں نے کہا کہ ان کا نام لیا جائے بات کرتے ہوئے خاصے جذباتی ہو گئے اور مجھے کہتے ہیں کیا یہ ٹرین پاکستان کی تاریخ میں ایک بڑا سنگ میل نہیں ہے؟
میں نے اثبات میں سر ہلایا اور ان کی تائید کی جبکہ ان کی آنکھوں میں چمک تھی۔
اور میرے ذہن میں سوال تھا کہ جس پراجیکٹ پر چین نے 1 اعشاریہ 3 ارب ڈالر لگائے اور ان کے افسران اور ورکر اس پراجیکٹ کو ایک ترقی کا ستون قرار دے رہے ہیں وہاں صوبہ پنجاب کے وزیر اعلی سمیت دیگر بڑی شخصیات نے اس کی افتتاحی تقریب میں شرکت تک نہیں کی ہے۔
کل 27 ٹرینز سسٹم میں شامل کی گئی ہیں ہر ٹرین میں پانچ بوگیاں ہیں اور ہر بوگی میں ساٹھ مسافروں کے بیٹھنے کی گنجائش ہے جبکہ معذور افراد اور خواتین کے لیے الگ سے انتظام موجود ہے۔ جبکہ کل 26 سٹیشنز بنائے گئے ہیں جن میں سے دو انڈر گراونڈ ہیں۔
اورنج لائن ٹرین کے کام کا باقاعدہ آغاز مسلم لیگ ن کے دور حکومت میں 2014 میں شروع ہوا جبکہ تحریک انصاف کی طرف سے اس پراجیکٹ پر شدید تنقید اور عدالتوں میں دائر مقدمات کے باعث اس پراجیکٹ کو مکمل کرنے میں خاصی دشواریاں رہیں۔ سپریم کورٹ آف پاکستان حکومت کو اورنج ٹرین چلانے کے لیے جنوری 2020 تک کی مہلت دے رکھی ہے۔
اورنج ٹرین کا ساڑھے 25 کلومیٹر کا ٹریک زمین سے بلند معلق پل پر ہے جبکہ پونے دو کلومیٹر کا ٹریک زیر زمین ہے جو کہ پرانی عمارتوں کو بچانے کے لئے بنایا گیا۔ اورنج ٹرین علی ٹاون سے ڈیرہ گجراں تک ستائیس کلومیٹر کا سفر 45 منٹ میں پورا کرے گی۔ جبکہ اس پر روزانہ اڑھائی لاکھ لوگ سفر کر سکیں گے۔

دسمبر سے مارچ تک اورنج ٹرین کا مکمل کنٹرول چینی انجینئرز کے پاس رہے گا 

تاہم اورنج لائن ٹرین کی استعداد کو روزانہ پانچ لاکھ افراد تک بڑھایا جا سکتا ہے۔ جب یہ پراجیکٹ چالو حالت میں آئے گا تو یہ رائیونڈ روڈ، ملتان روڈ، میکلیوڈ روڈ، لاہور ریلوے اسٹیشن جنکشن اور جی روڈ کو آپس میں ملا دے گا۔ اور یہ پاکستان کا پہلا ماس ریپڈ ٹرانزٹ ٹرین سسٹم ہے۔
ٹرین ٹھیک40 منٹ کے بعد علی ٹاون پہنچی راستے میں لوگ گھروں کی چھتوں پر موبائل فونز پر ٹرینز کی تصاویر اور ویڈیوز بناتے اور ہاتھ ہلاتے دکھائی دیے۔
سفر کے اختتام پر ایک بے رنگ تقریب رکھی گئی تھی جہاں تختی پر پنجاب کے وزیر ٹرانسپورٹ جہانزیب خان کچھی کا نام درج تھا، اس مختصر تقریب میں چین کا شکریہ ادا کیا گیا اور اورنج ٹرین کو پاکستانی عوام کے لیے ایک تحفہ قرار دیا گیا۔

شیئر:

متعلقہ خبریں