Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اورنج ٹرین مسافروں سے اب بھی دور

اورنج لائن ٹرین کا کرایہ 40 سے 50 روپے رکھا جائے گا، فوٹو: ٹوئٹر
لاہور کی مشہور زمانہ اورنج لائن ٹرین کا باقاعدہ افتتاح ہونے جا رہا ہے۔ 10 دسمبر کو اورنج لائن ٹرین اپنی قریباً 27 کلومیٹر پٹڑی پر دوڑے گی لیکن ابھی بھی مارچ تک یہ دوڑ اورنج ٹرین خود ہی کرے گی کیونکہ پاکستان کے اس پہلے جدید ترین مواصلاتی ٹرین سسٹم میں جو نظام نصب کیے گئے ہیں ان کے آپس میں روابط کو بھرپور طریقے سے جانچا جائے گا۔
پنجاب ماس ٹرانزٹ اتھارٹی کے جنرل مینیجر آپریشنز سید عزیر شاہ نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’10 دسمبر کو اورنج ٹرین کا آزمائشی سفر شروع ہو گا اور مارچ کے دوسرے ہفتے یعنی ساڑھے تین ماہ بعد اسے ماس ٹرانزٹ اتھارٹی کے حوالے کر دیا جائے گا۔ اس کے بعد ہی اس کو عام مسافروں کے لیے کھولا جائے گا۔‘ انہوں نے بتایا کہ عام طور پر دنیا میں آزمائشی طور پر ایسی ٹرین کو چھ ماہ چلایا جاتا ہے کیونکہ اتنے نظام اکھٹے کام کرتے ہیں ان کو ایک نکتے پر مرکوز کرنا ایک محنت طلب کام ہوتا ہے۔
دسمبر سے مارچ تک اورنج ٹرین کا مکمل کنٹرول چینی انجینئرز کے پاس رہے گا اور وہ روزانہ کی بنیاد پر اس کو آزمائشی طور پر چلائیں گے۔
اورنج ٹرین پر کام کرنے والے ایک چینی انجینیئر لی یوانگ نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’سب سے پہلے تو اس کے ڈیجیٹل سگنلنگ نظام کا ٹیسٹ ہو گا کیونکہ کئی ٹرینز ایک وقت میں پٹڑی پر موجود ہوں گی اور ان کو جی پی ایس سسٹم کے ذریعے ایک دوسرے سے محفوظ رکھا جائے گا۔ ایک ٹرین سے دوسری ٹرین کے درمیان فاصلہ سگنلنگ نظام کے ذریعے خود کار طریقے سے کنٹرول ہو گا۔
اس کے علاوہ آن لائن ٹکٹ کے نظام کو بھی ٹرینوں کی آمدورفت سے منسلک کیا گیا ہے۔ ٹکٹ کی خریداری کے بعد اسی مقناطیسی ٹکٹ کے ذریعے ہی مسافر پلیٹ فارم میں داخل ہو سکیں گے۔

سسٹم میں 27 ٹڑینز شامل کی گئی ہیں ہر ٹرین میں پانچ بوگیاں اور 60 مسافروں کے بیٹھنے کی گنجائش ہے، فوٹو: ٹوئٹر

لی یوانگ کے مطابق ایک اور مرحلہ ٹرین کے پلیٹ فارمز پر ایسی جگہ کھڑے ہونے سے متعلق ہے جہاں پلیٹ فارم اور ٹرین کے خود کار دروازے ایک دوسرے کے سامنے ہوں کیونکہ یہ بات براہ راست مسافروں کی حفاظت سے متعلق ہے۔
اس کے علاوہ ایک نظام اگلے آنے والے سٹیشن کی دوری اور وقت کے باہمی رابطے سے متعلق ہے۔ ہر ٹرین لمحہ بہ لمحہ مسافروں کو اندر اور باہر لگی سکرینز کے ذریعے اگلے سٹیشنز سے دوری اور وقت سے ایک خود کار نظام کے ذریعے آگاہ کر رہی ہو گی۔ اسی طرح یہی معلومات موبائل ایپلیکیشز اور گوگل پر بھی موجود ہوں گی۔
لی یوانگ کے مطابق یہ سب نظام آپس میں جتنے مربوط ہوں گے اور کسی قسم کے شک و شبہ سے بالاتر ہوں گے تو ہی ٹرین کو عام مسافروں کے لیے کھولا جائے گا۔

اورنج لائن ٹرین کے کام کا آغاز 2014 میں مسلم لیگ ن کے دور میں شروع ہوا، فوٹو: اے ایف پی

جی ایم آپریشنز ماس ٹرانزٹ اتھارٹی سید عزیر شاہ کے مطابق آپریشنز اور مینٹی نینس کا ٹھیکہ تو چینی کمپنیاں پہلے ہی حاصل کر چکی ہیں جن میں سے ایک چین کی سرکاری کمپنی چائنہ نارتھ انڈسٹریز گروپ کارپوریشن لمیٹڈ اور چائنہ ریلویز کنسٹرکشن کارپوریشن لمیٹڈ شامل ہیں۔ یہ دونوں کمپنیاں جدید ریلوے نظام کو چلانے کا وسیع تجربہ رکھتی ہیں۔
تحریک انصاف کی صوبائی حکومت نے حال ہی میں کابینہ کے ذریعے فیصلہ کیا ہے کہ اورنج لائن ٹرین کا کرایہ 40 سے 50 روپے رکھا جائے گا۔ اس سے پہلے میٹرو بس کا کرایہ بھی 20 روپے سے بڑھا کر 30 روپے کیا جا چکا ہے۔
کل 27 ٹرینز سسٹم میں شامل کی گئی ہیں ہر ٹرین میں پانچ بوگیاں ہیں اور ہر بوگی میں 60 مسافروں کے بیٹھنے کی گنجائش ہے جبکہ معذور افراد اور عورتوں کے لیے الگ سے انتظام موجود ہے جبکہ کل 26 سٹیشنز بنائے گئے ہیں جن میں سے دو انڈر گراونڈ ہیں۔

اورنج ٹرین کا ساڑھے پچیس کلومیٹر کا ٹریک زمین سے بلند معلق پل پر ہے، فوٹو: ٹوئٹر

اورنج لائن ٹرین کے کام کا باقاعدہ آغاز مسلم لیگ ن کے دور حکومت میں 2014 میں شروع ہوا جبکہ تحریک انصاف کی طرف سے اس پراجیکٹ پر شدید تنقید اور عدالتوں میں دائر مقدمات کے باعث اس پراجیکٹ کو مکمل کرنے میں خاصی دشواریاں رہیں۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے حکومت کو اورنج ٹرین چلانے کے لیے جنوری 2020 تک کی مہلت دے رکھی ہے۔
اورنج ٹرین کا ساڑھے پچیس کلومیٹر کا ٹریک زمین سے بلند معلق پل پر ہے جبکہ پونے دو کلومیٹر کا ٹریک زیر زمین ہے جو کہ پرانی عمارتوں کو بچانے کے لیے بنایا گیا۔ اورنج ٹرین علی ٹاون سے ڈیرہ گجراں تک 27 کلومیٹر کا سفر 45 منٹ میں طے کرے گی جبکہ اس پر روزانہ ڈھائی لاکھ  افراد سفر کر سکیں گے۔
تاہم اورنج لائن ٹرین میں مسافروں کی گنجائش کو روزانہ پانچ لاکھ افراد تک بڑھایا جا سکتا ہے۔ جب یہ پراجیکٹ آپریشنل حالت میں آئے گا تو یہ رائے ونڈ روڈ، ملتان روڈ، میکلوڈ روڈ، لاہور ریلوے سٹیشن جنکشن اور جی ٹی روڈ کو آپس میں ملا دے گا اور یہ پاکستان کا پہلا ماس ریپڈ ٹرانزٹ ٹرین سسٹم ہو گا۔
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں

شیئر: