Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سرکاری ملازمین کی ریٹائرمنٹ کی عمر میں اضافہ نہیں ہوگا

عشرت حسین کا کہنا ہے کہ حکومت چاہتی ہے کہ نوجوانوں کو نوکریاں ملیں اور ان کا راستہ نہ رکے (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کی وفاقی حکومت نے غورو خوض کے بعد سرکاری ملازمین کی ریٹائرمنٹ کی عمر میں تین سال کا اضافہ نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ وفاقی سیکرٹریوں کو کم سے کم دو سال تک اپنے محکموں سے نہ ہٹانے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے۔
یہ بات وزیراعظم کے مشیر برائے ادارہ جاتی اصلاحات ڈاکٹر عشرت حیسن نے وزیراعظم آفس میں اردو نیوز کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں بتائی۔
یاد رہے کہ رواں سال جولائی میں صوبہ خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت نے سرکاری ملازمین کی عمر کی حد 60 سے بڑھا کر 63 سال کر دی تھی۔
وزیراعظم آفس نے بھی ایک خط کےذریعے سیکرٹری خزانہ کو ہدایت کی تھی کہ وہ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن، پنجاب اور خیبر پختونخوا کے محکمہ خزانہ کے ساتھ ریٹائرمنٹ کی عمر کی حد کے قانونی اور مالی اثرات کے حوالے سے مشاورت کریں۔
ڈاکٹر عشرت حسین نے بتایا کہ حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ ریٹائرمنٹ کی عمر نہ بڑھائی جائے اور نوجوان نسل کو موقع دیا جائے کہ وہ سرکاری اداروں میں خدمات سرانجام دیں۔
’ہمارا ملک دنیا کے ان چند ممالک میں شامل ہے جہاں نوجوانوں کی بڑی تعداد ہر سال نوکری کی عمر تک پہنچتی ہے۔ ہم اس تعداد کا فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ ہر سال وفاق میں قریباً 12 سے 14 ہزار سرکاری نوکریاں دستیاب ہوتی ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے نوجوانوں کو یہ نوکریاں ملیں اور ان کا راستہ نہ رکے، اس لیے ریٹائرمنٹ کی عمر میں اضافہ نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور اس سلسلے میں وزیراعظم کو رپورٹ جلد پیش کی جائے گی۔‘
اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی ویب سائٹ کے مطابق وفاقی ملازمین کی تعداد 15 سے 16 لاکھ کے درمیان ہے جبکہ 12 فیصد نشستیں خالی ہیں۔ کل ملازمین میں سے کم و بیش 1 لاکھ 30 ہزار افسران ہیں جو گریڈ 17 سے 22 تک ہیں۔

اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے مطابق وفاقی ملازمین کی تعداد 15 سے 16 لاکھ کے درمیان ہے (فوٹو: اے ایف پی)

ڈاکٹر عشرت حسین جو مشیر بننے سے قبل ایک معروف امریکی تھنک ٹینک میں خدمات سرانجام دے رہے تھے، سول سروس کے حوالے سے کئی کتابوں اور مقالہ جات کے مصنف ہیں۔
ڈاکٹرعشرت حسین نے اپنی کتابوں میں پاکستان کی بیوروکریسی اور سول سروس کی خامیوں کی نشاندہی کی تھی اور ان کی مہارت کو دیکھتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے انہیں پاکستان کے حکومتی اداروں میں اصلاحات کے نظام کی نگرانی سونپی ہے۔
ڈاکٹر عشرت حسین کا کہنا تھا کہ ’انہوں نے کفایت شعاری کے تحت حکومتی محکموں کی تعداد 441 سے کم کر کے 324 کر دی ہے اور وزارتوں کی تعداد بھی کم کی جا رہی ہے۔‘
’مثال کے طور پر وفاقی وزارت تجارت اور ٹیکسٹائل ختم کر کے صنعت اور تجارت کی ایک وزارت قائم کر دی گئی ہے جبکہ وزارت کیپٹل ایڈمنسٹریشن ڈویژن کو ختم کر دیا گیا ہے، اس وقت کل 24 وزارتیں ہیں۔‘
اس سوال پر کہ کابینہ کے اجلاس میں بیٹھنے والے ارکان کی تعداد تو 49 کے قریب پہنچ جاتی ہے ان کا کہنا تھا کہ ’باقی لوگ معاون خصوصی وغیرہ ہیں۔‘
 

ڈاکٹر عشرت حسین کے مطابق ہر سال وفاق میں 12 سے 14 ہزار سرکاری نوکریاں دستیاب ہوتی ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

ڈاکٹرعشرت حسین سے جب پوچھا گیا کہ بیوروکریسی میں سرکاری مداخلت نہ کرنے کا حکومتی وعدہ کب پورا ہو گا، تو انہوں نے بتایا کہ ’وفاق کی سطح پر تو عہدے کی میعاد کا تحفظ یقینی بنانے کے لیے یہ طے کر دیا گیا ہے کہ کسی وفاقی محکمے کے سیکرٹری کا تبادلہ دو سال سے قبل نہیں کیا جائے گا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’عہدے کی مخصوص مدت کا تحفظ نچلی سطح پر اور صوبائی سطح پر مرحلہ وار متعارف کروایا جائے گا۔‘
وزیراعظم کے مشیر نے بتایا کہ ’قومی ’پے سکیل‘ پر نظر ثانی کے لیے حکومت ایک ریسرچ سٹڈی کروا رہی ہے جس کے بعد فیصلہ کیا جائے گا کہ موجودہ پے سکیل سسٹم کو کیسے بہتر کیا جائے۔‘
یاد رہے کہ نیب کے بعد ایف آئی اے نے بھی حکومت سے خصوصی پے سکیل کے تحت اضافی تنخواہوں کا مطالبہ کر رکھا ہے۔
ڈاکٹر عشرت حسین کا کہنا تھا کہ ’کرپشن کے خاتمے کے لیے ایف آئی اے کے ملازمین کی بہتر تنخواہوں کے حق میں ہیں تاہم اس سلسلے میں فیصلہ وزیراعظم نے کرنا ہے۔‘

ڈاکٹر عشرت حیسن  نے بتایا کہ وفاقی محکمے کے سیکرٹری کا تبادلہ دو سال سے قبل نہیں ہو گا (فوٹو: اے ایف پی)

انہوں نے کہا کہ ’اپنا عہدہ سنبھالنے کے بعد ان کی سب سے بڑی کامیابی حکومت کے زیرانتظام تمام خودمختار اداروں کے سربراہوں کی تقرری کا ایک شفاف طریق کار متعین کرنا ہے جس کے تحت عہدے کے لیے صحیح آدمی کا تقرر یقینی بنایا جا رہا ہے۔‘
’تمام محکموں کے سربراہوں کے لیے اشتہار دیا جاتا ہے پھر ایک کمیٹی امیدواروں کو شارٹ لسٹ کرتی ہے جس کے بعد  تین رکنی انٹریو بورڈ کے پاس معاملہ جاتا ہے جس میں سے دو کا تعلق اس محکمے سے نہیں ہوتا۔ اس شفاف عمل کے تحت اب تک 37 سربراہان کا تقرر کیا جا چکا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’شفاف عمل کی وجہ سے حکومت بیرون ملک سے باصلاحیت پاکستانیوں کو واپس لانے میں بھی کامیاب ہو رہی ہے۔ حال ہی میں نیشنل الیکٹریسٹی ریگولیٹری اتھارٹی کے چیئرمین توصیف ایچ فاروقی کی تعیناتی بھی ایک ایسی ہی مثال ہے۔ توصیف فاروقی تعیناتی سے قبل ابوظبی پاور کمپنی میں 15 سال خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔‘

شیئر: