Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جسٹس وقار کے خلاف جوڈیشل کونسل جانے کا فیصلہ

حکومتی ٹیم کے مطابق ’میت کو تین روز تک ڈی چوک میں لٹکانے کی بات حیران کن ہے۔‘ فوٹو: پی آئی ڈی
وفاقی حکومت نے سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے خلاف تفصیلی فیصلہ سامنے آنے کے بعد شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے، پیرا 66 لکھنے والے جج کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کرنے اور فیصلے کے خلاف اپیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ 
جمعرات کو اسلام آباد میں وزیر قانون فروغ نسیم نے وزیر اعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان اور معاون برائے احتساب شہزاد اکبر کے ہمراہ نیوز کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ’ اگر سزا سے قبل پرویز مشرف انتقال کر جائیں تو ان کی لاش کو لانے اور تین روز تک ڈی چوک میں لٹکانے‘ کی بات حیران کن ہے اس سے ملکی آئین ہی نہیں، بین الاقوامی اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی کی ہے۔‘
اس حوالے سے رولز کا آرٹیکل 209 کہتا ہے کہ یا تو کوئی شخصیت عہدے کے لیے خصوصی قابلیت نہیں رکھتی یا پھر ذہنی طور پر ان فٹ ہو، اسی کے تحت ہی سپریم جوڈیشل کونسل سے رجوع کیا جا رہا ہے۔
’ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ جسٹس وقار احمد سیٹھ ذہنی طور پر فٹ نہیں ہیں، ان کو ہائیکورٹ یا سپریم کورٹ کا جج ہونے کا اختیار نہیں ہے۔ اس آبزرویشن سے عدالت کا استحقاق مجروح ہوا ہے۔

 

انہوں نے 1994 میں ہونے والے ایک کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس وقت جسٹس نسیم حسن شاہ نے لکھا تھا کہ ’عوامی پھانسی اسلام اور آئین کے خلاف ہے۔‘
فروغ نسیم نے مزید کہا کہ ایسے فیصلے کی کوئی نظیر نہیں ملتی، ایسی آبزرویشن دینے کی جج کے پاس کیا اتھارٹی ہے، یہ انتہائی بری آبزرویشن ہے۔
اس موقع پر شہزاد اکبر نے کہا کہ فیصلہ پڑھ کر سر شرم سے جھک گیا ہے، پیرا 66 میں قانون اور آئین کو بالائے طاق رکھ دیا گیا۔ 21 ویں صدی میں ایسا ممکن نہیں ہے، یہ لمحہ فکریہ ہے۔
’اس پیراگراف سے ہماری جگ ہنسائی ہوئی ہے، یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ یہ چار سطری نوٹ کہاں سے آیا اور کیسے فیصلے میں شامل ہوا‘
شہزاد اکبر نے مزید کہا کہ تفصیلی فیصلے میں دو اختلافی نوٹ بھی ہیں تو پھر اتفاق کیسے ہو گیا اور اس کو فیصلے میں کیسے ڈال دیا گیا۔
’دیگر محرکات کو دیکھنے کی ضرورت ہے، بہت ہنگامہ خیزی کا مظاہرہ کیا گیا، غیرحاضری میں ٹرائل نہ ہونے کے باوجود فیصلہ دیا، یہ اداروں پر خودکش حملہ ہے‘
ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے فیصلے کو بیرونی سازشوں کا نتیجہ قرار دیا۔

پاکستان بار کونسل کا ردعمل 

پاکستان میں وکلا کی سب سے بڑی تنظیم پاکستان بار کونسل نے سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے خلاف خصوصی عدالت کی طرف سے آنے والے فیصلے سے متعلق پاکستان فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور کے بیان کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’ آئی ایس پی آر کے ڈائریکیٹر جنرل کا بیان قانونی اور آئینی دفعات کی کھلی خلاف ورزی ہے اور یہ توہین عدالت کے زمرے میں آتا ہے۔‘
پاکستان بار کونسل کے بیان کے مطابق اگر ڈی جی آئی ایس پی آر کی نظر میں اس فیصلے میں غلطیاں ہیں تو اس کے لیے قانونی راستہ موجود ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ’ جس طریقے سے آرمی کے ایک افسر کی جانب سے خصوصی عدالت کے فیصلے کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ پاکستان کے تمام ادارے مسلح افواج کے تابع ہے۔‘
پاکستان بار کونسل کے مطابق جس قسم کا رویہ وفاقی حکومت، وزرا اور قانون کے افسروں بالخصوص اٹارنی جنرل کی جانب سے اپنایا گیا، اس بات کی بھی تصدیق کرتا ہے کہ حکمراں جماعت کو آرمی اور اس کے ادارے لائے ہیں۔
واضح رہے اس سے قبل منگل کو اسلام آباد میں اٹارنی جنرل انور منصور کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے فردوس عاشق اعوان نے کہا تھا کہ ایک فیصلے کی وجہ سے ادارے کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

فردوس عاشق نے کہا تھا کہ کچھ نادان دوست فوج کی تضحیک میں مصروف ہیں۔ فوٹو: سوشل میڈیا

انہوں نے کہا تھا کہ کچھ نادان دوست فوج کی تضحیک میں مصروف ہیں۔ ہم سب کو آرمی جوانوں کے حوصلے بلند رکھنے ہیں۔
خصوصی عدالت کی جانب سے سنگین غداری کیس میں سابق فوجی  صدر پرویز مشرف کو سنائے جانے والے سزائے موت کے فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے انہوں نے مزید کہا تھا کہ انہیں قانون کے تقاضے پورے نہ ہونے پر تحفظات ہیں۔
اس موقع پر اٹارنی جنرل انور منصور کا کہنا تھا کہ ’آرٹیکل 10 اے سب کو فیئر ٹرائل کا حق دیتا ہے لیکن پرویز مشرف کیس میں ایسا نہیں ہوا جو آرٹیکل سے انحراف ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ کسی کو ذاتی حیثیت میں ہدف بنانے کا ایکشن تھا، عدلیہ آزاد ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ قانون سے آزاد ہو کر فیصلے دے۔

شیئر: