Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ساری عمر کا تیاگ اور پھر بھی خالی ہاتھ

قسمت کی یہ چکی ہر طبقے کی بیوہ کو کاٹنی پڑتی ہے فوٹو: اے ایف پی
ہم نے کیا آپ نے بھی شروع سے یہی سنا ہو گا کہ بیواؤں اور یتیموں کے کیا حقوق ہیں۔ ہمیشہ صدقہ زکوٰۃ کا حقدار بھی ان ہی کو سمجھا گیا۔ چلیے یتیم تو وہ چھوٹے بچے ہیں جن کے سر پر سے باپ کا سایہ اٹھ گیا ہو۔ ایک بچہ اپنی زندگی میں والدین کے بغیر کس قابل رہ جاتا ہے۔ ان کی مصیبت جاننا لازم ہے۔
بیواؤں کا معاملہ کچھ مختلف ہے۔ یہ وہ عورتیں ہیں جن کے شوہر انہیں چھوڑ کر جہان فانی کو کوچ کر گئے۔ وہ مرد جو ان کے سر کا سائبان تھے اب نہیں رہے۔ اسی لیے نہ صرف یہ زندگی میں ایک سایہ دار درخت سے محروم ہیں بلکہ مالی طور پر بھی تنگی و عسرت کا شکار ہیں۔ 
وہی عورتیں جو کبھی اپنے گھر کا سب نظام اپنے ہاتھ میں لیے بیٹھی تھیں۔ ہاتھ میں سونے کے کڑے گھماتی تھیں۔ آنکھوں سے کاجل نہیں اترنے دیتی تھیں۔ ہر وقت خوشبوؤں میں تر بہ تر رہتی تھیں۔ کسی رشتے دار کو بات کرنے کا موقع نہ دیتی تھیں، گھر کا سائیں جانے کے بعد اب ملگجے کپڑوں میں سر جھکائے دل مارنے لگتی ہیں۔ ہر وقت اسی دھڑکے میں رہتی ہیں کہ کل کا دن کیسے گزرے گا۔ بجلی کا بل کس طرح دیا جائے گا۔ کس طرح پیسے بچا لیے جائیں کہ اگر اگلے مہینے خرچہ نہ ہو تو بھی چولہا چکی چلتا رہے۔ 
بائی دا وے، قسمت کی یہ چکی ہر طبقے کی بیوہ کو کاٹنی پڑتی ہے۔ اگر نچلے طبقے کی بیوہ کو لوگوں کے گھروں کے برتن مانجھنے پڑتے ہیں تو متوسط یا بالائی طبقے کی بیوہ کے اپنے مسائل ہیں۔ سر اور کندھے دونوں جھک جاتے ہیں۔ 
ییتیم بچے بھی کسی سے فرمائش کرنے کی سہولت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ اگر کر بھی لیں اور کوئی فیاض رشتے دار پورا بھی کر دے تو سر ہمیشہ جھکا ہی رہتا ہے۔ نخرے بھی تب ہی اٹھائے جاتے ہیں جب باپ سلامت ہو۔
دیکھیے،انسان جو بھی کہہ لے۔ ہزار لمبی باتیں کر لے۔ بلند دعوے کر لے۔ یہ ساری جنگ ہے تو معیشت کی ہی۔ صدقہ دینے والا صدقہ لینے والے سے برتر ہے۔ جیب میں چار پیسے ہوں تو سر تنا رہتا ہے۔ انسان اکڑ کر چلتا ہے۔ بھلے خرچ نہ بھی کرنے ہوں لیکن ہاتھ میں رقم کا ہونا انسان کو اعتماد دیے رکھتا ہے۔ لینے والا ہمیشہ نظریں جھکائے رہتا ہے۔ احسان تلے دبا رہتا ہے لہٰذا ہم صدقے زکوٰۃ انہی کو دیتے رہیں گے۔ کئی ایک کا شملہ بلند رہے گا کہ کئی یتیموں اور بیواؤں کی کفالت کا ذمہ ان کے سر ہے۔ آخر کار دینے والا ہاتھ لینے والے ہاتھ سے اوپر ہی رہتا ہے۔

کالم نگار کا کہنا ہے کہ محض اس بات پر اکتفا نہ کر لیں کہ ان کے شوہر سدا رہیں گے فوٹو: اے ایف پی

ہم نے بھی اسے قسمت کا لکھا سمجھ کر مان لیا ہے۔ اس پر لب سی لیے ہیں کہ ایسا ہی ہوتا ہے۔ یوں ہی ہوتا آیا ہے۔ 
لیکن کیا کبھی ہم نے یہ سوچا کہ وہ عورت جو ایک مرد کے ساتھ تمام زندگی تنکا تنکا جوڑ کر ایک گھر بناتی ہے، اس کو ہر ممکن آرام فراہم کرتی ہے کہ جب وہ کام سے گھر لوٹے تو اس کے لیے گرم کھانا میز پر دھرا ہو
اس کے کپڑوں کی استری کو میلی ہوا بھی نہ چھوئے، تنگی اور خوشحالی دونوں میں اس کا ساتھ دیتی ہے، اسی مرد کے دنیا سے جاتے ہی بے سر و سامان کیوں ہو جاتی ہے؟ اس کے کندھے کیوں جھک جاتے ہیں؟ اس کی چال میں وہ پہلے کی سی تمکنت کیوں نہیں رہتی؟
اگر گھر میں سکون نہ ہو تو مرد کیسے کمائے گا؟ اگر شروع سے ہم نے اپنی بیٹیوں کو یہ درس دیا ہے کہ شوہر کو آرام پہنچانا ان کا فرض ہے تو یہ بات بھی تسلیم کرنا ہو گی کہ مرد جو بھی کماتا ہے اس میں عورت کا بھی کردار ہوتا ہے۔ مکان کو گھر بنانے میں عورت کا کردار کیسے فراموش کیا جا سکتا ہے؟ اپنے گہنے بیچ کر مجازی خدا کے کاروبار میں ڈالنے والی عورت کے پاس کیا بچا؟ اپنی خواہشات کو مار کر ایک ’بہتر‘ مستقبل کی بنیاد رکھنے والی کے ہاتھ کیا آیا؟
ایک بٹا آٹھ! جی صاحب، ایک بٹا آٹھ! اگر اولاد ہے تو ایک بٹا آٹھ اور اگر اولاد نہیں ہے تو ایک بٹا چار۔ بس یہی اس کی متاع ہے۔ اور ایک منٹ، پکچر ابھی باقی ہے۔ اگر مرنے والے کے والد حیات ہیں، تو اس سے بھی ہاتھ دھو لیجیے۔
ریاست پاکستان کا قانون ایک بیوہ کے لیے اسی قدر کشادگی کا روادار ہے۔ باقی سب ان کا ہے جس سے مرنے والے کا خون کا رشتہ تھا۔ عورت کا کام تمام عمر اپنا آپ مار کر سسرال کی خدمت اور مرد کے ساتھ ’بہتر‘ مستقبل بنانا ہی تھا۔ مرد کے مرنے کے بعد اس کے پلے یہی بچتا ہے۔

ضروری ہے کہ عورتیں خود کو مضبوط کریں۔ یہ شعور بیدار کریں کہ ان کے ہاتھ خالی  ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی

قانون سے کون لڑ سکا ہے؟ قسمت بھی انسان کے اختیار میں نہیں۔ حفظ ماتقدم ضرور انسان کے ہاتھ میں ہے۔ یہ بات جان رکھیے کہ آپ جس قدر بھی گھر بنانے کے لیے خون پسینہ بہا دیں آپ کے مقدر میں محض ایک بٹا آٹھ/چار/صفر اور ایک جھکا ہوا سر ہی ہے۔۔۔ یہ ایک بٹا آٹھ/چار بھی اسی صورت میں ممکن ہے اگر جائیداد کا بٹوارہ ہو۔ ورنہ تو اس سے بھی منہ دھو رکھیے۔ صفر تو ہے ہی۔اس لیے یہ سمجھ لینا بہت ضروری ہے کہ عورتیں معاشی طور پر خود مختار نہیں ہوں گی تو صدقے زکوٰۃ کی مستحق ہی ٹھہریں گی۔
 محض اس بات پر اکتفا نہ کر لیں کہ ان کے شوہر سدا رہیں گے یا ان کے لیے کچھ چھوڑ جائیں گے۔ اپنے ہاتھ میں محض اپنی کمائی ہی ہے۔ انسان کے سر پر وہی چھت ساتھ نبھاتی ہے جس پر اپنا مکمل اختیار ہو۔ مالکانہ حقوق ہوں۔ جس گھر سے نکالے جانے کا خدشہ ہو وہ کیسے سائبان فراہم کرے گا؟
اس لیے ضروری ہے کہ عورتیں خود کو مضبوط کریں۔ یہ شعور بیدار کریں کہ ان کے ہاتھ خالی ہیں۔ اگر خود نہیں بھریں گی تو کسی کے سامنے پھیلانے ہوں گے۔ یہ بات اپنے پلو سے باندھ لیں کہ وقت سدا ایک سا نہیں رہے گا۔
یہ سونے کے کنگن ہمیشہ ہاتھوں میں نہیں گھومیں گے۔ جب وقت پلٹے گا تو ساتھی سے جدائی کے ملال کے ساتھ تہی دامنی کا احساس بھی چیخ چیخ کر کانوں کے پردے پھاڑے گا۔ ہاتھ میں محض کچھ یادیں اور تصویریں بچیں گی کہ اس کے علاوہ اور کچھ تھا بھی نہیں۔
اب آپ پھر کہیں گے کہ یہ کیا گھسا پٹا کالم لکھ دیا۔ صاحب، آپ حالات واقعات بدلیے ہم موضوع بدل دیں گے۔ آپ بیواؤں کے لیے قانون بدلیے، خدا کی قسم اگلا کالم آپ کی شان میں قصیدہ ہوگا۔

شیئر: