Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

معیشت میں خواتین کا کردار اہم کیوں؟

عرب ممالک کے سربراہان کا ماننا ہے کہ خواتین کو روزگار کے برابر کے مواقع فراہم کرنا معیثت کے لیے اہم ہے۔ فوٹو: اے ایف پی
عرب ممالک میں خواتین کے ملکی معیشت میں اہم کردار کی اہمیت اجاگر ہونا شروع ہو گئی ہے۔
عرب ممالک کے سربراہان کا ماننا ہے کہ مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین کو روزگار کے برابر کے مواقع فراہم کرنا معیثت کے لیے انتہائی اہم ہے۔
متحدہ عرب امارات کے شہر ابو ظہبی میں حال ہی میں ہونے والی سالٹ کانفرنس میں ماہرین نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ جن ممالک میں خواتین کو روزگار کے برابر مواقع فراہم کیے گئے ہیں، ان کی معیشت قدرے بہتر ہوئی ہے۔  
ایک اندازے کے مطابق اگر خلیج تعاون کونسل (جی سی سی) کے ہر ملک کی افرادی قوت میں خواتین کی تعداد بڑھا دی جائے تو اس سے 2025 تک جی سی سی کی مشترکہ معیشت میں سات فیصد یا ایک سو 80 ارب ڈالر کا اضافہ ہوسکتا ہے۔
اگر ان ممالک میں خواتین کو مردوں کے برابر مواقع فراہم کیے جائیں تو جی سی سی کی مشترکہ معیشت میں 32 فیصد یا آٹھ سو 30 ارب ڈالر کا اضافہ ہوسکتا ہے۔
خواتین کے حقوق پر کام کرنے والی مسعودہ سلطان کا کہنا ہے، ’روایتی طور پر مشرقِ وسطیٰ صنفی فرق کے اعتبار سے دنیا میں کافی پیچھے ہے، لیکن اب یہاں تبدیلی آرہی۔‘
عرب امارات میں خواتین کے لیے کافی اقدامات کیے گئے ہیں، جن میں جینڈر بیلینس کونسل کا قیام شامل ہے۔ امارات میں اس بات کو بھی یقینی بنایا جا رہا ہے کہ فیڈرل نیشنل کونسل میں خواتین کم از کم آدھی نشستیں دی جائیں۔

امارات میں اس وقت یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل ہونے والوں میں سے 70 فیصد خواتین ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی

امارت میں کاروبار کرنے والی ایک مقامی خاتون ڈاکٹر شیما فواز کا کہنا ہے، ’اب ہمارے یہاں مردوں اور خواتین کو برابر تنخواہیں ملتی ہیں اور زچگی کی چھٹیوں کو ایک ماہ سے بڑھا کر تین ماہ تک کردیا گیا ہے۔‘
امریکی جریدے سائنٹیفک امریکین کے مطابق جن اداروں میں خواتین اور مردوں کو برابر کے حقوق فراہم کیے جاتے ہیں ان میں کام مزید بہتر انداز میں کیا جاتا ہے۔
امارات میں اس وقت یونیورسٹیوں فارغ التحصیل ہونے والوں میں سے 70 فیصد خواتین ہیں، جبکہ ملک کی تقریباً 10 فیصد آمدنی میں خواتین کا کردار ہے۔

امارت کی ایک خاتون کا کہنا ہے، ’اب ہمارے یہاں مردوں اور خواتین کو برابر تنخوہیں ملتی ہیں۔۔۔‘

المسکاری نام کی کپمنی کے سربراہ نبیل المسکاری کا ماننا ہے کہ تعلیم کے حصول کے لیے خواتین کی حوصلہ افزائی کرنا لازمی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ انکی والدہ امارات کی پہلی خاتون تھیں جنہیں تعمیراتی لائسنس ملا تھا۔
’وہ اپنے کام میں اس لیے آگے بڑھنا چاہتی تھیں کیونکہ وہ اپنے ملک اور معاشرے کی خدمت کرنا چاہتی تھیں۔‘

شیئر: