Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’ہم باکسنگ میں بھی نمبر ون ہیں‘

ایشیئن بوائے کے نام سے مشہور پاکستانی باکسر عثمان وزیر کہتے ہیں کہ خواہش ہے کہ انڈین حریف کے ساتھ مقابلہ ہو اور دونوں ملکوں کے شائقین جس طرح کرکٹ میچ کے لیے پرجوش ہوتے ہیں اسی طرح باکسنگ کے مقابلہ کے لیے بھی پرجوش نظر آئیں۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے باکسر عثمان وزیر نے کہا کہ ’انڈیا پاکستان کے خلاف ہمیشہ کوئی نہ کوئی بات کرتا رہا ہے، جس طرح ہماری آرمی نمبر ون ہے تو میں چاہتا ہوں کہ انڈیا کے باکسر کے ساتھ بھی مقابلہ ہو تاکہ میں ان کو بتا سکوں کہ ہم باکسنگ میں بھی نمبر ون ہیں۔‘
عثمان وزیر کو پروفیشنل باکسنگ کیریئر میں ایک سال ہو گیا ہے۔ انہوں نے ایک سال میں تین فائٹس کھیلیں اور تینوں فائیٹس اپنے نام کی ہیں۔
عثمان وزیر حال ہی میں فلپائن کے شہر منیلا میں اپنی تیسری فائٹ جیتنے میں کامیاب ہوئے اور اپنے کیریئر کی ہیٹ ٹرک مکمل کی۔
اپنے مستقبل کے اہداف بارے بات کرتے ہوئے عثمان وزیر نے کہا کہ ان کی نظر  ورلڈ باکسنگ چیمپئین شپ کے یوتھ ٹائٹل پر ہے۔
’میں چاہتا ہوں کہ مستقبل میں پاکستان کے لیے ورلڈ باکسنگ چیمپیئن شپ کا یوتھ ٹائٹل جیتوں۔ ابھی تک کسی پاکستانی باکسر نے یہ ٹائٹل نہیں جیتا، میں چاہتا ہوں کہ میں یہ اعزاز پاکستان کے نام کروں۔‘
ورلڈ باکسنگ چیمپیئن شپ کے یوتھ ٹائٹل  کے لیے 22  سال یا اس سے کم عمر باکسرز کے درمیان بہترین باکسرز کے درمیان مقابلہ ہوتا ہے۔ عثمان وزیر کے پاس اس ٹائیٹیل کی فائیٹ کھیلنے کے لیے دو سال موجود ہیں۔
 ’ ابھی میرے پاس وقت بھی ہے تین چار فائیٹس مزید کھیلوں گا تو پھر میں اس ٹائٹل کے لیے جا سکتا ہوں۔ مجھے امید ہے کہ یہ ٹائٹل پاکستان کے نام کرلوں گا۔‘
ایشیئن بوائے نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں پروفیشنل باکسنگ کی ٹرینرز اور کوچز کا فقدان ہے۔ مجھے سینئیر ٹائٹیل کے حصول کے لیے میکسیکنز اور امریکی باکسرز کے ساتھ مقابلہ کرنا ہوگا ’میں سمجھتا ہوں کہ یہ مقابلے میرے لیے سخت ہوں گے اور اسکے لیے مجھے ٹرینگ بھی سخت کرنا ہوگی ۔ پاکستان کے باہر جاکر مجھے ٹرینگ لینا ہوگی۔‘

عثمان وزیر نے اپنی ابتدائی ٹریننگ گلگت میں کی اور بعد ازاں باکسر عامر خان کی اکیڈمی میں تربیت حاصل کی۔

عثمان وزیر کو ایشیئن بوائے کیوں کہا جاتا ہے؟

عثمان وزیر باکسنگ کی دنیا میں ایشیئن بوائے کے نام سے شہرت رکھتے ہیں ۔ انہوں نے اس نام کے پیچھے راز بتاتے ہوئے کہا کہ وہ امیچر باکسنگ کھیلنے اذربئیجان میں موجود تھے جہاں ایونٹ میں شامل تمام باکسرز کا وزن کیا جا رہا تھا جس کے لیے مقامی کھلاڑیوں (یورپیئن) اور دیگر براعظموں سے آئے کھلاڑیوں کی الگ الگ قطاریں بنائی گی تھیں۔
’وہاں سیکیورٹی والوں نے مجھے یورپیئن سمجھ کر یورپیئن کھلاڑیوں کی لائن میں کھڑا کر دیا۔ پھر ٹرینگ کے دوران بھی وہ سمجھتے تھے کہ میں یورپیئن کھلاڑی ہوں پھر میرے ذہن میں آیا کہ اس طرح تو میری پہچان نہیں رہے گی اس لیے میں نے خود کو ایشیئن بوائے کہنا شروع کر دیا اور اب سب ایشیئن بوائے کے نام سے ہی جانتے ہیں۔‘

والد کا خواب پورا کرنے کے لیے باکسر بننے کا فیصلہ کیا

گلگت کے ضلع استور سے تعلق رکھنے والے عثمان وزیر بتاتے ہیں کہ ان کے والد کا خواب تھا کہ وہ ایک باکسر بنے لیکن ناکافی سہولیات کی وجہ سے اپنا خواب پورا نہیں کر پائے اس لیے انہوں نے اپنے والد کے ادھورے خواب کو پورا کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے باکسنگ کو کیرئیر کے طور پر اپنایا۔
عثمان وزیر کہتے ہیں کہ ’میں گلگت میں بھی باکسنگ کی کچھ نہ کچھ ٹرینگ کرتا رہتا تھا لیکن اس حوالے سے وہاں کسی قسم کی سہولیات موجود نہیں ہیں پھر میں نے اپنے والدین کو اپنے خواب کے بارے بتایا  ’میں نے بھی جب گھر میں باکسنگ کی بات کی تو میرے والد جانتے تھے یہ کتنا خطرناک کھیل ہے انہوں نے مجھے منع کیا اور روکا کہ نہیں باکسنگ کی طرف نہیں جانا لیکن میری والدہ نے میری کافی مدد کی اور انہوں نے مجھے اجازت دی۔

عثمان وزیر حال ہی میں فلپائن کے شہر منیلا میں اپنی تیسری فائٹ جیتنے میں کامیاب ہوئے۔

عثمان وزیر کے مطابق ’پاکستان میں کھیلوں کی سہولیات اتنی نہیں ہیں، والدین بچوں کو کھیلوں کی طرف راغب نہیں کرتے کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ اس میں کوئی مستقبل نہیں ہے، میرے والدین کو بھی لوگ کہتے تھے کہ آپ کا بچہ وقت ضائع کر رہا ہے اور اب جب اللہ نے کامیابی دی تو سب مجھ پر فخر کرتے ہیں ۔ میرا ماننا ہے کہ جب آپ مثبت لوگوں میں رہیں گے تو آپ ضرور آگئے جائیں گے۔‘

ٹریننگ کے دوران لگا کہ شاید میں بہترین باکسر نہ بن سکوں

عثمان وزیر کہتے ہیں کہ بعض دفعہ ان کو یہ احساس ہوا کہ شاید وہ باکسنگ میں مقام حاصل نہیں کر پائیں گے۔ ’ٹریننگ کے دوران بہت بار ایسا لگا کہ شاید میں آگے نہ جا سکوں، پروفیشنل باکسنگ نہ کھیل سکوں۔ کبھی کبھار تو آپ کے ٹرینرز اور کوچز بھی آپ کو کہتے ہیں کہ آپ اچھے باکسر نہیں بن سکتے، حوصلہ افزائی کرنے کے بجائے حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ میں اکثر کوچز کی یہ باتیں سن کر سوچا کرتا تھا کہ کیوں ایسی بات کرتے ہیں، لیکن پھر میں نے اس بات کو  مثبت سوچ کے ساتھ لیتا تھا اور زیادہ محنت کرتا تھا، میں نے خود پر اور اللہ پر بھروسہ کیا اور پھر مواقع بھی ملے اور اللہ نے کامیابی بھی دی۔‘
عثمان وزیر کہتے ہیں کہ پاکستان میں پروفیشنل ٹرینرز اور کوچز کی کمی ہے لیکن عامر خان باکسنگ اکیڈمی سے نوجوان باکسر کو فائدہ ہو رہا ہے اور پاکستانی باکسرز اب اپنا نام بنا رہے ہیں۔ ’کوچز کی کمی ہے لیکن آپ محنت کریں تو راستہ نکال ہی لیتے ہیں۔‘

شیئر: