Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا امریکی کانگریس ٹرمپ کو جنگ سے روک سکتی ہے؟

ایوان نمائندگان نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے جنگ کے اختیارات محدود کرنے کی قرارداد منظور کی ہے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
امریکی ایوان نمائندگان نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے جنگ کرنے کے اختیارات محدود کرنے کے لیے ایک قرارداد منظور کی ہے جس میں ان سے کہا گیا ہے کہ وہ ایران کے خلاف مزید فوجی کارروائی کرنے سے پہلے کانگریس سے اجازت طلب کریں۔
اس قرارداد پر تبصرہ کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ اس عمل کے لیے کسی کی اجازت کے محتاج نہیں ہیں اور اس نوعیت کے فوری فیصلوں کے لیے کسی سے اجازت کی ضرورت بھی نہیں ہونی چاہیے۔
ایوان نمائندگان کی اس قرارداد اور اس پر ڈونلڈ ٹرمپ کے رد عمل کے بعد امریکہ اور دنیا بھر میں یہ بحث شدت اختیار کر گئی ہے کہ کیا امریکی صدر سے جنگ کرنے کا اختیار واپس لیا جا سکتا ہے؟ 
امریکہ میں صدر سے جنگ کرنے کے اختیارات واپس لینے کا قانون 1973 میں اس وقت نافذ العمل کیا گیا تھا جب مقامی سیاسی و سماجی حلقے اس وقت کے امریکی صدر رچرڈ نکسن کی ویت نام میں کی جانے والی کارروائیوں پر اضطراب کا شکار تھے۔
اس قانون کے تحت امریکی چیف ایگزیکٹو (صدر) کے لیے ضروری ہے کہ کسی فوجی کارروائی سے پہلے عوامی نمائندوں سے’ہر ممکن حد تک مشورہ کرے‘،  فوجوں کی تعیناتی کے 48 گھنٹوں کے اندر کانگریس کو آگاہ کرے اور بیرون ملک کسی بھی فوجی کارروائی کو 60 دنوں تک ختم کرے جب تک کہ کانگریس اس کو جاری رکھنے یا باقاعدہ جنگ کا آغاز کرنے کی منظوری نہ دے۔
امریکی اخبار ’نیو یارک ٹائمز‘ کے مطابق صدر ٹرمپ کے جنگی اختیارات کے حوالے سے منظور کردہ قرارداد کے بعد دلچسپ صورتحال پیدا ہو گئی ہے۔
ایوان نمائندگان میں 194 کے مقابلے میں 224 ووٹوں سے منظور ہونے والی قرارداد کو سینیٹ میں ناکامی کا سامنا ہو سکتا ہے کیونکہ سینیٹ میں ٹرمپ کی سیاسی جماعت ری پبلکنز کو عددی برتری حاصل ہے۔

امریکی سینیٹ میں ری پبلکنز کو عددی برتری حاصل ہے۔ (فائل فوٹو:اے ایف پی)

بین الاقوامی تعلقات اور سیاسیات کے ماہرین اس پیشرفت کو معمولی اور امریکہ کے مقامی حالات سے منسلک سمجھتے ہیں۔ 
خطے اور امریکی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے قائداعظم یونیورسٹی کے پروفیسر راجہ قیصر نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے کہا کہ ’ایوان نمائندگان کا یہ عمل خالصتاً سیاسی ہے۔‘
’یہ سال امریکی انتخابات کا سال ہے۔ ہمیں اس کو انتخابی سیاست کے طور پر دیکھنا چاہیے۔ اس قدم کے کوئی طویل مدتی اثرات مرتب نہیں ہوں گے اور یہ محض سیاسی فائدے کے لیے اٹھایا گیا ہے۔ میں ایران امریکہ تنازعے کو اس نقطے سے آگے بڑھتا ہوا نہیں دیکھتا۔‘
سیاسیات کے ماہر رسول بخش رئیس اس رائے سے متفق ہیں۔
’ڈیموکریٹک پارٹی نے اپنی عددی برتری کا سہارا لیتے ہوئے اس قرارداد کے ذریعے صدر ٹرمپ کی فیصلہ سازی پر سوالیہ نشان لگانے اور انتخابات سے قبل ان کی شہرت خراب کرنے کی کوشش کی ہے۔‘ 

عراق میں اب بھی امریکی فوج موجود ہے (فائل فوٹو:اے ایف پی)

 روائتی طور پر کئی امریکی صدور ماضی میں فوجی کارروائیاں کرتے وقت اس قانون کو نظر انداز بھی کر چکے ہیں۔
1981 میں صدر رونالڈ ریگن نے کانگریس کو رپورٹ کیے بغیر ایل سلواڈور میں فوجی تعینات کر دئیے تھے جبکہ بل کلنٹن نے 1999 میں کانگریس کی منظوری کے بغیر کوسوو میں بمباری جاری رکھی تھی۔
2011 میں باراک اوباما نے بھی کانگریس کی منظوری کے بغیر لیبیا میں فوجی کارروائی شروع کر دی تھی۔
واشنگٹن پوسٹ کی کالم نگار امبرفلپس نے اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ کانگریس کو جنگ شروع کرنے کا اختیار دینا بظاہر سادہ لگتا ہے لیکن درحقیقت یہ پیچیدہ معاملہ ہے۔
’جنگ ہے کیا ؟ کیا یہ شام کے کیمیائی ہتھیاروں کے پروگرام پر میزائل چلانا ہے، جیسا کہ ٹرمپ نے ماضی میں کیا، یا پھر ایک جارح ملک کے اعلٰیٰ حکومتی عہدیدار کو مارنا جیسا کہ ٹرمپ نے ایرانی کمانڈر قاسم سلیمانی کے ساتھ کیا ؟‘
’جنگی اختیارات ایک ایسی چیز ہے جس کو آپ تبھی جانتے ہیں جب اس کو قریب سے دیکھتے ہیں۔ لیکن کانگریس جنگ کا اعلان کرنے کے لیے اختیار استعمال کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار رہی ہے کیونکہ اس کے ساتھ ایک بڑا سیاسی خطرہ جڑا ہے۔‘

شیئر: