Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

امریکہ ایران پر کون سی نئی پابندیاں عائد کرسکتا ہے؟

امریکہ ایران پر پہلے ہی دفاعی اور تجارتی شعبوں میں کافی پابندیاں عائد کر چکا ہے۔ (فائل فوٹو:اے ایف پی)
ایران کی طرف سے عراق میں امریکی فوجی اڈوں پر حملے کے بعد صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران پر نئی پابندیاں لگانے کا اعلان کیا ہے لیکن اب تک ٹرمپ کے اس بیان کی تفصیلات سامنے نہیں آئیں کہ امریکہ ایران پر کون سی نئی پابندیاں لگانے جا رہا ہے۔
امریکہ ایران پر پہلے ہی دفاعی اور تجارتی شعبوں میں کافی پابندیاں عائد کر چکا ہے اور ماہرین کے مطابق اب امریکہ کے پاس زیادہ آپشنز نہیں ہیں کیونکہ ایسا کوئی شعبہ نہیں ہے جس میں امریکہ نے ایران پر پہلے ہی پابندیاں نہ لگا رکھی ہوں۔
پاکستان کی قائداعظم یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے سربراہ ڈاکٹر نذیرحسین نے اردو نیوز کو بتایا کہ اب ایسا کوئی شعبہ نہیں بچا جس میں امریکہ ایران پر مزید پابندیاں عائد کر سکے۔انہوں نے اقتصادی، دفاعی، سیاسی اور شخصی پابندیاں پہلے ہی لگا رکھی ہیں۔ میرے خیال میں ٹرمپ اب مزید کچھ نہیں کر سکتے۔ یہ نئی دھمکیاں ہیں جو وہ مقامی لوگوں کو خوش کرنے کے لیے لگا رہے ہیں۔‘
پاکستان کے صف اول کے تھنک ٹینک ’سسٹین ایبل ڈیویلپمنٹ پالیسی انسٹیٹیوٹ‘ کے سربراہ عابد سلہری کے مطابق امریکہ اب اقوام متحدہ سے ایران یا اس کے کچھ اہم افراد کے خلاف پابندیاں لگوانے کے لیے قرارداد لا سکتا ہے، جس کی کامیابی کے زیادہ امکانات نہیں ہیں کیونکہ اس کو چین یا روس ویٹو کر دے گا۔

امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے مطابق ٹرمپ کے تازہ ترین اعلان سے پہلے ہی دسمبر میں ایران کے لیے کام کرنے والے چار عراقیوں پر شخصی پابندیاں لگا دی گئی تھیں (فوٹو:اے ایف پی)

’دوسرا قدم یہ ہو سکتا ہے کہ وہ یورپی یونین یا دیگر اتحادیوں سے ایران پر پابندیاں لگانے کا مطالبہ کریں۔ لیکن میرا نہیں خیال کہ کوئی ملک مانے گا کیونکہ پہلے سے لگائی گئی امریکی پابندیوں کے باوجود یورپی یونین ایران سے تیل خرید رہا ہے اور اس کو انسانی بنیادوں پر خوراک فراہم کر رہا ہے۔‘
تاریخ اور بین الاقوامی تعلقات کے ماہر ڈاکٹر الہان نیاز سمجھتے ہیں کہ اب امریکہ کے پاس واحد آپشن ایران کی کچھ سیاسی شخصیات پر پابندیاں لگانا ہے جیسا کہ انہوں نے ان کے وزیر خارجہ جواد ظریف کو ویزا نہ دے کر کیا۔
امریکہ نے ایران کے خلاف سب سے پہلے 1979 میں پابندیاں عائد کی تھیں جب تہران میں اس کے شہریوں کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔ اس وقت ایران کے تقریباً 12 ارب ڈالر کے اثاثوں کو منجمند کر دیا گیا تھا۔ اس کے بعد ایران پر متعدد اقتصادی، بینکنگ، تجارتی، دفاعی اور نقل و حمل کی پابندیاں لگائی گئیں۔
امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے مطابق ٹرمپ کے تازہ ترین اعلان سے پہلے ہی دسمبر میں ایران کے لیے کام کرنے والے چار عراقیوں پر شخصی پابندیاں لگا دی گئی تھیں۔

امریکہ نے 2015 میں ایٹمی پروگرام پر ایک ڈیل کے بدلے میں ایران پر اقتصادی پابندیوں میں نرمی کر دی تھی (فوٹو:اے ایف پی)

اس سے قبل ستمبر 2019 میں امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے ایران کے ساتھ ساتھ ان چینی کمپنیوں اور ان کے عہدیداران پر بھی پابندی لگانے کا اعلان کیا تھا جو وہاں سے تیل لے کر جا رہی تھیں۔
اسی اعلان کے ساتھ انہوں نے اس عزم کا اظہار بھی کیا تھا کہ وہ ایران کے ساتھ تجارت کرنے والے ممالک اور کاروباری اداروں پر تعاون روکنے کے لیے دباؤ بڑھائیں گے۔
اب تک ایران پر لگائی جانے والی پابندیوں کے تحت اس کو دفاعی ٹیکنالوجی فروخت نہیں کی جاسکتی اور تجارت بھی نہیں کی جا سکتی۔
امریکہ نے 2015 میں ایٹمی پروگرام پر ایک ڈیل کے بدلے میں ایران پر اقتصادی پابندیوں میں نرمی کر دی تھی لیکن 2018  میں صدر ٹرمپ نے یہ ڈیل مسوخ کر کے تمام پابندیاں بحال کر دی تھیں۔ 

شیئر: