Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پرویز مشرف سنگین غداری کیس: کب کیا ہوا؟

پرویز مشرف کو مخالفین نے عدالت کے ذریعے انتخابات میں حصہ لینے سے روک دیا (فوٹو: اے ایف پی)
لاہور ہائی کورٹ کے تین رکنی بنچ نے پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کے مقدمے کی سماعت کرنے اور انہیں سزا سنانے والی عدالت کی تشکیل کو ہی غیر قانونی قرار دے دیا ہے۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ سنگین غداری کیس کا مقدمہ کب کیسے اور کیوں بنا؟ خصوصی عدالت کی تشکیل کیسے ہوئی اور اس عدالت نے کیا فیصلہ دیا؟
2013 سے خود ساختہ جلاوطنی اختیار کیے ہوئے پرویز مشرف انتخابات میں حصہ لینے کے لیے ملک واپس آئے۔ انہوں نے ملک کے مختلف حلقوں میں کاغذات نامزدگی جمع کرائے۔ ان کے مخالفین نے 3 نومبر 2007 کی ایمرجنسی کو بنیاد بنا کر ان کو سنگین غداری کا مرتکب قرار دیتے ہوئے انتخابات میں حصہ لینے سے روکنے کی استدعا کی جس کے بعد پشاور ہائی کورٹ نے انہیں انتخابات میں حصہ لینے سے روک دیا۔
 پاکستان کی وکلا تنظیموں کی جانب سے سپریم کورٹ میں پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کا مقدمہ درج کرنے کی درخواست دی گئی۔ سپریم کورٹ نے 5 اپریل 2013 کو سنگین غداری ایکٹ 1973 کے دفعہ 2 اور 3 کے تحت پرویز مشرف کے خلاف درخواست سماعت کے لیے منظور کی۔
دوران سماعت عدالت نے حکومت سے سنگین غداری کیس کے حوالے سے معلوم کیا تو اٹارنی جنرل نے بتایا کہ حکومت بہت جلد ان کے خلاف مقدمہ شروع کرنے والی ہے۔
سابق وزیر اعظم نواز شریف نے 24 جون 2013 کو قومی اسمبلی کو بتایا کہ ان کی حکومت سپریم کورٹ سے پرویز مشرف کے خلاف آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت ٹرائل کی درخواست کرے گی۔
26  جون 2013 کو وزیراعظم نواز شریف نے پرویز مشرف کے خلاف ایف آئی اے انکوائری کے لیے خط لکھا۔ خط میں لکھا گیا کہ وزارت داخلہ پرویز مشرف سنگین غداری کے الزامات کی تحقیقات کے لیے ایف آئی اے کی خصوصی ٹیم تشکیل دے۔ وزیراعظم کے خط کی بنیاد پر وزارت داخلہ نے ایف آئی اے کی ٹیم تشکیل دی تھی۔
16 نومبر کو ایف آئی اے نے انکوائری کر کے وزارت داخلہ کو اپنی رپورٹ جمع کرائی اور پھر 13 دسمبر 2013 کو انکوائری رپورٹ کے تناظر میں لاء ڈویژن کی مشاورت سے پرویز مشرف کے خلاف شکایت درج کرائی گئی۔

پرویز مشرف کے خلاف سب سے سنگین جرم آئین کی معطلی تھا (فوٹو: اے ایف پی)

 شکایت میں پرویز مشرف کے خلاف سب سے سنگین جرم متعدد مواقع پر آئین معطل کرنا تھا۔

خصوصی عدالت کی تشکیل

سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کی سماعت کے لیے جسٹس فیصل عرب کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی عدالت تشکیل دی گئی۔
خصوصی عدالت نے پہلی بار سابق صدر کو 24 دسمبر کو طلب کیا۔
31 مارچ 2014 کو پرویز مشرف پر فرد جرم عائد کی گئی۔ اس دوران پرویز مشرف نے جرم سے انکار کیا تو ٹرائل کا باقاعدہ آغاز کیا گیا جس کے بعد 18 ستمبر 2014 کو پراسیکیوشن نے پرویز مشرف کے خلاف شہادتیں مکمل کیں۔ شہادتیں مکمل ہونے پر پرویز مشرف کو بطور ملزم بیان ریکارڈ کرانے کا کہا گیا۔
2  جنوری 2014 کو پرویز مشرف کو سنگین غداری کیس کی سماعت کے لیے خصوصی عدالت لے جاتے ہوئے دل کے عارضے کی وجہ سے عدالت کے بجائے آرمڈ فورسسز انسٹیٹوٹ آف کارڈیولوجی (اے ایف آئی سی) پہنچا دیا گیا۔ عدالت نے طبی بنیادوں پر ان کے وارنٹ گرفتاری جاری نہ کیے۔
اے ایف آئی سی نے سات جنوری کو پرویز مشرف کی میڈیکل رپورٹ عدالت میں جمع کرائی جس میں بتایا گیا کہ سابق آرمی چیف کے دل کی تین شریانیں بند ہیں اور انہیں دیگر آٹھ بیماریاں لاحق ہیں۔

سنگین غداری کیس کی سماعت کے لیے خصوصی عدالت تشکیل دی گئی (فوٹو: اے ایف پی)

خصوصی عدالت نے اے ایف آئی سی کو سابق صدر کی صحت کا جائزہ لینے کے لیے میڈیکل بورڈ بنانے اور رپورٹ جمع کرانے کا حکم دیا جس نے پرویز مشرف کی حالت کو ’سنگین‘ بتایا اور ان کا علاج ان کے مرضی کے مقام پر کرنے کی تجویز دی۔
خصوصی عدالت نے سات فروری کو پرویز مشرف کو سنگین غداری کیس میں دوبارہ پیش ہونے کا کہا۔
18  فروری 2014 کو 22 سماعتوں میں عدم پیشی کے بعد پرویز مشرف عدالت میں پیش ہوئے، تاہم ان پر فرد جرم عائد نہیں کی گئی کیونکہ دفاع نے موقف اپنایا کہ ان کے خلاف کیس کی سماعت فوجی عدالت میں ہونی چاہیے۔
دلائل کے بعد 21  فروری 2014 کو خصوصی عدالت نے حکم جاری کیا کہ سابق آرمی چیف کا فوجی عدالت میں ٹرائل نہیں ہوگا۔ 30 مارچ 2014 کو پرویز مشرف پر سنگین غداری کیس میں دوبارہ فرد جرم عائد کی گئی تاہم انہوں نے صحت جرم سے انکار کیا۔
14 مارچ، 2016 کو پرویز مشرف نے طبی بنیادوں پر ایک بار بیرون ملک جانے کی اجازت طلب کی۔ 16 مارچ 2016 کو سپریم کورٹ نے پرویز مشرف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم دیتے ہوئے انہیں علاج کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دی۔
18 مارچ، 2016 کو پرویز مشرف یہ وعدہ کرتے ہوئے علاج کے لیے دبئی روانہ ہوئے کہ وہ چند ہفتے میں وطن واپس لوٹ آئیں گے لیکن وہ کبھی واپس نہ لوٹے۔
11 مئی 2016 کو سنگین غداری کیس میں خصوصی عدالت نے پرویز مشرف کو مفرور قرار دیا۔

عدالت کے کئی بار بلانے کے باوجود مشرف عدالت میں پیش نہیں ہوئے (فوٹو: اے ایف پی)

پرویز مشرف کو مسلسل عدم حاضری پر پہلے مفرور اور پھر اشتہاری قرار دیا گیا۔ 31 مئی 2018 کو وزارت داخلہ نے خصوصی عدالت کے احکامات کی روشنی میں نادرا اور ڈائریکٹوریٹ جنرل امیگریشن اور پاسپورٹ کو پرویز مشرف کا شناختی کارڈ اور پاسپورٹ معطل کرنے کی ہدایت کی۔
جون 2018 میں سپریم کورٹ نے پرویز مشرف کو اس شرط پر انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دی کہ وہ عدالت میں ذاتی طور پر پیش ہوں گے۔
مشرف نے کہا کہ وہ پاکستان واپس آنے کے لیے تیار تھے لیکن گرفتاری کے خدشے کے باعث انہوں نے اپنا ذہن تبدیل کر لیا۔
 11 جون 2019 کو سپریم کورٹ نے نادرا کو پرویز مشرف کا شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بحال کرنے کا حکم دیا۔ 8 اکتوبر 2019 کو خصوصی عدالت نے 24 اکتوبر سے غداری کیس کی سماعت روزانہ کرنے کا فیصلہ کیا۔
خصوصی عدالت نے پرویز مشرف کے خلاف کیس کا فیصلہ سنانے کے لئے 28 نومبر کی تاریخ مقرر کی۔
وزارت داخلہ اور پرویز مشرف کے وکیل نے فیصلہ روکنے کے لئے اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی اور 27 نومبر کو اسلام آباد ہائیکورٹ نے خصوصی عدالت کو فیصلہ سنانے سے روک دیا تھا۔
سنگین غداری کیس میں 100 سے زائد سماعتیں ہوئیں، اس دوران 4 ججز تبدیل ہوئے، عدالت نے متعدد مرتبہ پرویز مشرف کو حاضر ہونے کا حکم دیا اور وقت دیا لیکن وہ عدالت میں پیش نہیں ہوئے۔

خصوصی عدالت یہ فیصلہ سنانے کے بعد از خود تحلیل ہوچکی ہے (فوٹو: اے ایف پی)

مشرف کو سزائے موت

17 دسمبر 2019 کو جسٹس وقار احمد سیٹھ کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی عدالت نے آرٹیکل 6 کے تحت ملک سے غداری کا جرم ثابت ہونے پر سابق صدر اور آرمی چیف جنرل (ر) پرویز مشرف کو سزائے موت سنا دی۔
انھیں دو ایک کے فرق سے سزا سنائی گئی تھی۔ عدالت نے ہر جرم کے بدلے میں ایک بار سزائے موت دینے کا حکم دیا تھا۔
اس فیصلے میں جسٹس سیٹھ وقار احمد کے پرویز مشرف کے فوت ہو جانے کی صورت میں ان کی لاش کو تین دن تک لاش کو ڈی چوک پر لٹکائے رکھنے کی رائے کی وجہ سے فیصلے کو خاصی تنقید کا بھی سامنا رہا۔
خصوصی عدالت یہ فیصلہ سنانے کے بعد از خود تحلیل ہوچکی ہے۔

شیئر: