پاکستان کے صوبہ پنجاب کے محکمہ داخلہ نے حال ہی میں ’سائبر پیٹرولنگ‘ کے نام سے ایک ایسے پراجیکٹ کا آغاز کیا ہے جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ سوشل میڈیا پر نفرت انگیز مواد پھیلانے والوں کو ’ریئل ٹائم‘ میں مانیٹر کیا جا رہا ہے۔
سرکاری اعدادوشمار کے مطابق اس پراجیکٹ کے آغاز کے پہلے 24 گھنٹوں میں 200 سے زائد ایسے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کا کھوج لگایا گیا جو نفرت انگیز مواد شیئر کر رہے تھے جبکہ ان اکاؤنٹس کے پیچھے چھپے بیٹھے 17 افراد کو گرفتار بھی کیا گیا ہے۔
اس سائبر پیٹرولنگ کے حوالے سے حکومت کا کہنا ہے کہ اس سے پہلے اس طرح کا مربوط نظام موجود نہیں تھا جس میں بیک وقت کئی ادارے ملک کر سائبر سپیس کو محفوظ بنا رہے ہیں۔
مزید پڑھیں
-
واٹس ایپ ہیکنگ کے واقعات، سائبر فراڈ سے کیسے بچا جائے؟Node ID: 891260
سائبر پیٹرولنگ ہے کیا؟
محکمہ داخلہ پنجاب کا کہنا ہے کہ انہوں نے ایک ایسا نظام وضع کیا ہے جو ڈیجیٹل سپیس میں ریئل ٹائم مواد کی چھان بین کر سکتا ہے۔ 24 گھنٹے جاری رہنے والے اس نظام میں افرادی قوت اور جدید سافٹ ویئر استعمال کیے جا رہے ہیں۔
کسی بھی جگہ سے نفرت انگیز یا فرقہ وارانہ مواد شائع ہوتے ہی وہ ڈیجیٹل سکریننگ میں آجاتا ہے۔ ٹیمیں اس مواد کے پیچھے چلنے والے اکاؤنٹ کی معلومات لینے اور اس کے بارے میں کارروائی کے لیے مختلف صوبائی اور وفاقی محکموں کو بیک وقت آگاہ کر دیتے ہیں۔
تاہم کیا واقعی ایسا ممکن ہے کہ انٹرنیٹ پر ’ریئل ٹائم‘ میں اتنے بڑے پیمانے پر مانیٹرنگ کی جا سکے؟ یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ پنجاب کی حد تک پھر بھی سمجھ آتی ہے لیکن ملک کے دیگر حصوں اور بیرون ممالک سے آنے والے مواد کو پنجاب کا محکمہ داخلہ کیسے روک سکتا ہے؟
مزید یہ کہ اس بات کے کتنے امکانات ہیں کہ جعلی یا تشدد پر اکسانے والے مواد کو شائع کرنے والا تو اپنا کام کر چکا تو پھر بعد میں گرفتاری سے نقصان کا ازالہ کیسے ہو گا؟

ان سوالات کے جواب جاننے کے لیے جب محکمہ داخلہ سے رابطہ کیا گیا تو ترجمان توصیف صبحیح کا کہنا تھا کہ ’ہم یہ سب کچھ ریئل ٹائم میں ہی کر رہے ہیں اور بڑے پیمانے پر کر رہے ہیں۔ تین شفٹوں میں کام ہو رہا ہے۔ مواد کی چھان بین کے بعد سپیشل برانچ کو رپورٹ کیا جا رہا ہے جو کہ صوبے کے تمام اضلاع کی پولیس اور وفاقی وزارت داخلہ اور پی ٹی اے سے براہ راست منسلک ہے۔ ان تمام اداروں کو پہلی بار ہاٹ لائنز کے ذریعے جوڑا گیا ہے۔ اس لیے وقت کا ضیاع کیے بغیر کارروائی کی جا رہی ہے۔‘
پنجاب کی حد تک پولیس کارروائی کر رہی ہے دوسرے صوبوں اور بیرون ملک سے شائع ہونے والے مواد کو کیسے روکا جائے گا؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے توصیف صبحیح نے اُردو نیوز کو بتایا کہ اس حوالے سے سارا مینڈیٹ پی ٹی اے کے پاس ہے اور اب ان کے پاس اس حد تک اختیار ہے کہ وہ سوشل میڈیا کمپنیوں سے اس مواد کی رسائی پاکستان فوری طور پر بند کروا رہے ہیں۔
’دوسرے صوبوں کے حوالے سے چونکہ وفاقی وزارت داخلہ اور ایف آئی اے بھی اس نظام کا حصہ ہے اس لیے ان کے ذریعے سے کارروائی کی جا رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پہلے 24 گھنٹوں میں دو سو سے زائد سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے خلاف کارروائی ہو چکی ہے۔‘
سوشل میڈیا پر مواد نشر ہونے کے بعد اس کو روکنا مشکل ہے حکومتی کارروائی تک نقصان ہو جانے کا خدشہ موجود ہے تو اس کو کیسے دیکھا جا رہا ہے؟ اس سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’یہ نظام پوری طرح اب فعال ہوا ہے لیکن پاکستان انڈیا جنگ میں اس کو ٹیسٹ کر لیا گیا تھا۔‘

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے توصیف صبحیح نے کہا کہ ’اس سوال کے دو پہلو ہیں، ایک ہے فیک نیوز جو فرقہ واریت پھیلا سکتی ہے اس کے لیے ہر ضلع میں ایک کنٹرول روم ہے جس ضلع کی بات ہو رہی ہے۔ اس ضلع کے تمام سرکاری سوشل میڈیا اکاؤنٹس اور واٹس ایپ گروپس پر خبر جعلی ہونے کی صورت میں اس کی تردید جاری کی جاتی ہے تاکہ لوگ پینیک نہ ہوں۔ ڈیجیٹل افواہ کا توڑ ڈیجیٹل ہی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’دوسرا پہلو ہے کہ کوئی ویسے ہی نفرت پھیلا رہا ہے۔ اس طرح کے مواد کا فوری خطرہ نہیں ہوتا اس لیے اس کو وقت لگا کر اس کی شناخت کر کے اس کو پکڑا جا رہا ہے۔‘
خیال رہے کہ سائبر پیٹرولنگ کا استعمال ابھی تو صرف فرقہ وارانہ معاملات کی بیخ کنی تک ہے، تاہم کیا مستقبل میں اس کو سیاسی مقاصد کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے یا نہیں اس حوالے صورت حال وقت آنے پر ہی واضح ہو گی۔