Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پنجاب: ایس ایچ او تھانوں کے مالی معاملات بھی دیکھیں گے

محکمہ خزانہ سے تھانے کا بجٹ براہ راست بھیجنے کی سفارش کی گئی ہے، فوٹو: سوشل میڈیا
پنجاب پولیس میں اصلاحات کی باتیں تو کافی عرصے سے چل رہی ہیں اور اس سلسلے میں محکمہ پولیس نے پہلا قدم خود ہی بڑھا دیا ہے۔
 نئے آئی جی پنجاب شعیب دستگیر نے حکومت سے تھانوں کو مالی طور پر آزاد کرنے کی سفارش کر دی ہے۔
آئی جی آفس کے مطابق ’حکومت کو تحریری طور پر ان اصلاحات کے لیے آگاہ کر دیا گیا ہے کیونکہ قانون سازی کی صورت میں محض رولز میں ترامیم سے تھانے اقتصادی طور پر خود مختار ہو جائیں گے۔ ‘
واضح رہے کہ کسی بھی تھانے کا خزانہ ضلعی افسر کے پاس ہوتا ہے اور وہ تھانوں کے بجٹ ان کی ضرورت کے مطابق تقسیم کرتا ہے۔ اب کہا گیا ہے کہ محکمہ خزانہ تھانے کا بجٹ ڈی ڈی آر کے بجائے براہ راست تھانے کے اکاؤنٹ میں بھیجے۔
 حکومت پنجاب کو لکھے گئے مراسلے میں کہا گیا ہے کہ ’ڈی ڈی آر (خزانے کا ضلعی افسر) کا اختیار براہ راست ہر تھانے کے ایس ایچ او کو تفویض کیا جائے۔‘ اس کے ساتھ ہی یہ سفارش بھی کی گئی ہے کہ ’ہر تھانے میں ایک عدد اکاؤنٹنٹ بھی بھرتی کیا جائے۔‘ اس طرح سے ہر تھانہ براہ راست آڈٹ میں آ جائے گا اور اس تھانے کی مالی طور پر آزادی سے پولیس کو آزادی سے کام کرنے کا موقع ملے گا۔
پنجاب کے 36 اضلاع میں اس وقت کل تھانوں کی تعداد 712 ہے۔

وزیراعلیٰ پولیس اصلاحات کو وقت کی ضرورت قرار دے چکے ہیں (فوٹو: پنجاب پولیس)

گذشتہ دور حکومت میں ان تمام تھانوں کو ڈیجیٹلائز کر دیا گیا تھا یعنی اب یہ تمام تھانے ایف آئی آر اور دیگر شکایات کا کمپیوٹرائزڈ ریکارڈ رکھ رہے ہیں۔ اس کے لیے ہر تھانے میں فرنٹ ڈیسک بنایا گیا ہے جس کے لیے علیحدہ سے تربیت یافتہ سٹاف بھی بھرتی کیا گیا ہے۔
تھانوں کو مالی طور پر آزادی فراہم کرنے کا حتمی فیصلہ تو حکومت پنجاب کرے گی، تاہم اس حوالے سے تھانوں کے سٹیشن ہاؤس آفیسرز یعنی ایس ایچ اوز نے خوشی کا اظہار کیا ہے۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے لاہور کے ایک ایس ایچ او محمد فاروق نے بتایا کہ ’یہ فیصلہ تو بہت اچھا ہے، کم سے کم ہر تھانہ مالی معاملات خود دیکھے گا۔ اس سے پہلے جس طریقے سے فنڈز کی ترسیل ہوتی ہے وہ نہ ہونے کے برابر ہے۔‘

تھانوں میں اکاؤنٹنٹ بھرتی کرنے کی سفارش بھی کی گئی ہے (فوٹو: اے ایف پی)

ایس ایچ او محمد فاروق کا کہنا تھا کہ ’پولیس کا کام ایسا ہوتا ہے کہ 24 گھنٹے آپریشنز کے کام چل رہے ہوتے ہیں۔ ابھی تو کمیونٹی کے تعاون سے کئی بار نظم و نسق چلانا پڑتا یے، نہ صرف مالی آزادی دی جائے بلکہ ایک نئے طریقے سے ایک تھانے کے اخراجات کا پیشہ وارانہ انداز میں تخمینہ بھی لگایا جائے اور پہلے سے مختص بجٹ میں اضافہ کیا جائے۔ اس سے کمیونٹی پر انحصار بالکل ختم ہو جائے گا اور پولیس جرائم کی روک تھام کے لیے پیشہ وارانہ صلاحیتوں کو درست انداز میں استعمال کر سکے گی۔‘
لاہور کے ایک اور ایس ایچ او نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اردو نیوز کو بتایا کہ ’اس سے پہلے یہ حالات ہیں کہ تھانوں کو چلانے کے لیے کمیونٹی کے افراد پر بہت زیادہ انحصار کرنا پڑتا ہے، ضلعی فنڈز ایک تو تاخیر سے ملتے ہیں، دوسرا وہ اتنے کم ہوتے ہیں جس سے ایک تھانے کے اخراجات چلائے ہی نہیں جا سکتے۔‘

شیئر: