Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بیوروکریٹ فواد حسن فواد کی ضمانت منظور

فواد حسن فواد کے وکیل نے کہا کہ ان کے موکل پر ابھی تک فرد جرم بھی عائد نہیں ہوئی (فوٹو:سوشل میڈیا)
لاہور ہائیکورٹ نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کے پرنسپل سیکرٹری فواد حسن فواد کی آمدن سے زائد اثاثوں کے کیس میں ضمانت منظور کرلی ہے۔
منگل کو لاہور ہائیکورٹ میں کیس کی سماعت کے دوران فواد حسن فواد کے وکیل اعظم نذیر تارڑ نے عدالت کے روبرو موقف اختیار کیا کہ ان کے موکل کو 2018 میں گرفتار کیا گیا لیکن ابھی تک فرد جرم بھی عائد نہیں ہوئی۔ ’فواد حسن فواد کے نام پر کچھ بھی نہیں۔‘
جس پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ ’بے نامی جائیداد ہے، رشتے داروں کے نام پر سب رکھا ہے۔‘
جسٹس طارق عباسی نے نیب پراسیکیوٹر سے استفسار کیا کہ فواد حسن کی اہلیہ اور بھائی نے دوران تفتیش کیا موقف دیا؟ جس پر انہوں نے بتایا کہ ان کی اہلیہ نے تحریری جواب میں کہا ہے کہ وہ گھریلو خاتون ہیں۔ پلازہ ایک کمپنی کے نام ہے جس کی چیف ایگزیکٹو آفیسر فواد حسن کی اہلیہ ہیں۔
جسٹس طارق عباسی نے دوبارہ استفسار کیا کہ کیا کسی رشتے دار نے یہ کہا کہ جائیداد فواد حسن نے لی؟
نیب پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ ایسا کسی نے نہیں کہا۔ جس کمپنی کے نام سب کچھ ہے اس کے اکاؤنٹس میں کچھ بھی نہیں۔
جس پر جسٹس طارق عباسی نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’نیب نے بے نامی جائیداد کے تین شریک ملزمان کو گرفتار کیوں نہیں کیا؟ جن کے نام سب کچھ ہے انہیں گرفتار کیوں نہ کیا؟ جس کے نام کچھ بھی نہیں اسے گرفتار کیا ہوا ہے۔‘

عدالت نے کہا کہ جس کے نام کچھ بھی نہیں اسے گرفتار کیا ہوا ہے (فوٹو: سوشل میڈیا)

عدالت نے دلائل مکمل ہونے پر فواد حسن فواد کی ضمانت منظور کرتے ہوئے انہیں رہا کرنے کا حکم دے دیا۔
فواد حنس فواد کو چھ جولائی 2018 کو قومی احتساب بیورو نے  آشیانہ ہاؤسنگ سوسائٹی کے مقدمے میں گرفتار کیا تھا۔ ان پر الزام تھا کہ انہوں نے ایک نجی کمپنی کا آشیانہ اقبال (سرکاری ہاوسنگ کالونی) کی تعمیر کا کنٹریکٹ منسوخ کروایا جس سے قومی خزانے کو نقصان پہنچا۔
اسی گرفتاری کے دوران نیب نے ان پر ایک اور مقدمہ آمدن سے زائد اثاثوں کا بھی بنا دیا۔
فروری 2019 میں لاہور ہائی کورٹ نے آشیانہ ہاؤسنگ سوسائٹی کے مقدمے میں ان کی ضمانت منظور کر لی تھی جبکہ وہ آمدن سے زائد اثاثوں کے کیس میں 17 ماہ سے جیل میں تھے اور انہوں نے ایک مرتبہ پھر اپنی ضمانت کے لیے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

شیئر:

متعلقہ خبریں