Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جلیلہ حیدر حراست میں رہنے کے بعد رہا

جلیلہ حیدر کانفرنس میں شرکت کے لیے لاہور سے برطانیہ جا رہی تھیں، فوٹو: فیس بک
پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں ہزارہ برادری کے حقوق کے لیے کام کرنے والی معروف ایکٹیوسٹ جلیلہ حیدر کو نو گھنٹے حراست میں رکھنے کے بعد پیر کی صبح 10:45 پر رہا کر دیا گیا۔
جلیلہ حیدر کو ایف آئی اے حکام کی جانب سے پیر کی صبح دو بجے لاہور کے علامہ اقبال انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر بیرون ملک جانے سے روک دیا گیا تھا۔
حکام کی جانب سے جلیلہ حیدر کو لاہور ایئرپورٹ پر روکا جانا سوشل میڈیا کا ٹرینڈ بن گیا ہے۔
پیر کی صبح سامنے آنے والی اطلاع کے مطابق جلیلہ حیدر ایک کانفرنس میں شرکت کے لیے لاہور ایئرپورٹ سے برطانیہ جا رہی تھیں کہ انہیں روک لیا گیا۔ ٹوئٹر صارفین کے مطابق جلیلہ حیدر سے کہا گیا ہے کہ ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں موجود ہے۔
انسانی حقوق کی کارکن، قانون دان اور بلاگر کو روکے جانے کے معاملے پر متعدد صارفین نے سوال کیا کہ انہیں کیوں روکا گیا ہے؟ پاکستان کے سینیئر صحافی اور معروف ٹیلی ویژن میزبان حامد میر نے بھی اپنی ایک ٹویٹ میں یہی استفسار کیا۔
عمار علی جان نامی صارف نے اپنی الگ الگ ٹویٹس میں معاملے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ’حکام واضح طور پر یہ نہیں بتا رہے کہ جلیلہ حیدر کہاں ہیں۔‘ ایک الگ ٹویٹ میں انہوں نے لکھا کہ ’حکام نے جلیلہ حیدر کے روکے جانے کو ’حساس‘ معاملہ قرار دیا ہے۔‘ انہوں نے یہ اطلاع بھی دی کہ جلیلہ حیدر کے اہل خانہ لاہور ایئرپورٹ پر موجود ہیں جب کہ ان کے روکے جانے کا سن کر متعدد افراد ہوائی اڈے پر پہنچ رہے ہیں۔
جلیلہ حیدر نے خود کو روکے جانے کی وجہ بیان کرتے ہوئے فیس بک پوسٹ میں لکھا کہ وہ (حکام) کہتے ہیں ریاست مخالف سرگرمیوں کی وجہ سے میرا نام ای سی ایل میں ڈالا گیا ہے۔

جلیلہ حیدر کو روکنے کا سن کر متعدد افراد ہوائی اڈے پر پہنچ گئے تھے، فوٹو: سوشل میڈیا

31 سالہ جلیلہ حیدر ہزارہ برادری کی پہلی خاتون وکیل شمار کی جاتی ہیں۔  بااثر خاتون ایکٹیوسٹ قرار دی جانے والی جلیلہ حیدر ’وی دی ہیومن پاکستان‘ نامی غیر سرکاری ادارے کی بانی بھی ہیں۔

بلوچستان کی جلیلہ حیدر اپنی برادری کی پہلی خاتون قانون دان ہیں، فوٹو: سوشل میڈیا

ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) پاکستانی حکومت کا بارڈر کنٹرول نظام ہے۔ 1981 میں متعارف کرائے گئے قانون کے تحت ایک فہرست بنائی جاتی ہے جس میں شامل افراد پاکستان سے باہر نہیں جا سکتے، اگر کوئی ایسا کرنا چاہے تو ملک کے خارجی راستوں پر اسے روک لیا جاتا ہے۔ اس قانون پر عمل درآمد کی ذمہ داری وفاقی وزارت داخلہ پر عائد ہوتی ہے۔

شیئر: