Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’محمود صاحب اور محمود اسلم دو مختلف انسان ہیں‘

محمود اسلم کا شمار پاکستان کے سینیئر ترین اداکاروں میں ہوتا ہے۔ قریباً پانچ دہائیوں پر مشتمل اپنے کیریئر میں انہوں نے متعدد مثبت اور منفی قسم  کے کردار کیے لیکن ان کو اصل شہرت اور پہچان ڈرامہ سیریز ’بلبلے‘ کے کامیڈی کردار محمود صاحب سے ملی۔
یہ ایک سادہ سے انسان کا کردار ہے جس نے ریٹائرمنٹ لے لی ہے اور چونکہ اس کے آگے پیچھے کوئی نہیں ہے تو وہ اپنے نوجوان دوست نبیل کے ساتھ ایک مکان میں رہنا شروع کردیتا ہے، جلد ہی دونوں ایک خاندان کی طرح ہو جاتے ہیں۔
’بلبلے‘ کے 10 سال مکمل ہونے پر محمود اسلم نے اردو نیوز سے خصوصی انٹرویو میں اپنے کردار اور ڈرامے کے بارے میں تفصیل سے بات کی۔     
محمود اسلم کا کہنا تھا کہ ’انہیں جب بھی کوئی کردار ملتا ہے تو ان کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ جہاں تک ممکن ہو سکے اسے حقیقت سے قریب کریں لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بلبلے کے محمود صاحب محمود اسلم سے بہت مختلف ہیں۔
کیا انہیں اس کردار کی بے انتہا مقبولیت کے بارے میں اندازہ تھا؟ اس کے جواب میں محمود اسلم نے کہا کہ ’صرف محمود صاحب کا نہیں بلکہ کسی بھی کردار کے بارے میں معلوم نہیں ہوتا کہ آگے چل کر اس کی کیا شکل نکلے گی لیکن وہ اتنا ضرور جانتے ہیں کہ جب کوئی کام نیک نیتی کے ساتھ کیا جاتا ہے تو خدا برکت ڈال دیتا ہے۔‘

محمود اسلم کے مطابق بچوں میں ڈرامے کی مقبولیت مزے کی بات ہے، (فوٹو: سوشل میڈیا)

بلبلے میں محمود صاحب نبیل کی والدہ ’مومو‘ سے شادی کرنا اور اس کے ذریعے معاشرے کے ایک مشکل موضوع پر بات کرنے کے بارے میں محمود اسلم کا کہنا تھا کہ ’مصنف جب بھی کوئی کہانی اور اس کے کردار تخلیق کرتا ہے تو کہیں نہ کہیں وہ حقیقی زندگی میں بھی زندہ ہوتے ہیں لیکن بلبلے میں شروع سے ایسا نہیں لکھا گیا تھا بلکہ ڈرامے کے دوران ہی ایسی مزیدار صورت حال بن گئی اور محمود صاحب اور مومو کی شادی ہو گئی، یہ بڑی بات ہے کہ اسے ناظرین نے قبول کیا اور پسند بھی کیا۔‘
’سب سے مزے کی بات جو ہمیں آج تک سمجھ نہیں آئی کہ یہ ڈرامہ بچوں میں بھی بہت مقبول ہو گیا ہے اور میں اکثر اپنی ساتھی اداکارہ حنا دلپزیر سے کہتا ہوں کہ’ مجھے کبھی لگتا ہے کہ ہم دونوں کے کردار ٹام اینڈ جیری کی طرح ہیں جو بچوں سے لے کر 95 سال کے بزرگ تک مل کر دیکھتے ہیں۔‘  

محمود اسلم نے بتایا کہ اگر ’بلبلے‘ کی شوٹنگ نہ ہو تو زندگی میں کمی محسوس ہوتی ہے (فوٹو: سوشل میڈیا)

بلبلے کی مسلسل پسندیدگی کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ’ہمارے پاس جو فیڈ بیک آ رہا ہے اس سے  پتا چلتا ہے کہ بہت سے بیمار لوگ اس ڈرامے کو دیکھنے کے دوران کچھ دیر کے لیے اپنی باقی تمام پریشانیوں کو بھول جاتے ہیں۔ بہت سے نابینا افراد صرف اس ڈرامے کے ڈائیلاگ اور میوزک سن کر ہی محظوظ ہوتے ہیں۔ شاید بلبلے اب ڈرامے کے ساتھ ایک دوا اور علاج کی صورت اختیار کرگیا ہے جس کے لیے مجھے یقین ہے کہ ہمیں بہت سی دعائیں بھی مل رہی ہیں تو جب تک لوگوں کی دعائیں شامل ہیں تب تک بلبلے چلتا رہے گا۔‘
اپنے کردار کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ’کسی بھی کردار میں کم یا زیادہ ایک اداکار کا اپنا حصہ یا اس کی اپنی اختراع ضرور ہوتی ہے۔‘

محمود اسلم کہتے ہیں کہ لوگ ’بلبلے‘ کے لیے اپنی پریشانیاں بھول جاتے ہیں (فوٹو: سوشل میڈیا)

’میں اکثر کہتا ہوں کہ ایک لکھاری کی کہانی، اس کے کردار یا مکالمے تب تک بے جان رہتے جب تک ان میں ایک اداکار جان نہیں ڈالتا، تو جتنا اچھا ایک اداکار اپنے کام کو سمجھے گا اتنا ہی مصنف کا سکرپٹ بھی اوپر جائے گا۔ میرے خیال میں اگر ایک اچھے ادکار کو ایک اچھا سکرپٹ مل جائے تو یہ ایک بہترین جوڑ ہوتا ہے۔‘
محمود اسلم نے بتایا کہ ’وہ گذشتہ 10 سال سے بلبلے کے اتنے عادی ہو چکے ہیں کہ اگر چند ماہ اس کی شوٹنگ نہ ہو تو زندگی میں کمی محسوس ہوتی ہے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’ان کے سیٹ پر سب کے لیے بہت اپنائیت والا ماحول ہوتا ہے جہاں سب بغیر کسی تناؤ کے بہت آرام سے کام کرتے ہیں اور یہ گھر جہاں بلبلے شوٹ ہوتا ہے انہیں اپنے ہی گھر جیسا لگتا ہے۔‘
’اتنا اچھا وقت گزارنے کے بعد ہمارا یہی دل چاہتا ہے کہ یہ سب ایسا ہی چلتا رہے لیکن حقیقت میں بلبلے کی ریکارڈنگ لگاتار مہینے کے صرف پانچ دن ہی ہوتی ہے جن میں ہم اس ماہ کی تمام اقساط ریکارڈ کرلیتے ہیں۔‘  

محمود اسلم کے مطابق ایک اچھے اداکار کو ایک اچھا سکرپٹ مل جائے تو یہ ایک بہترین جوڑ ہوتا ہے (فوٹو: سوشل میڈیا)

فلموں میں ایک طویل عرصے بعد واپسی کے بارے میں محمود اسلم کا کہنا تھا کہ قریباً 28 سال بعد انہوں دو سال قبل ’طیفا ان ٹربل‘ میں کام کیا تھا جس کے بعد انہوں نے گذشتہ برس ’رانگ نمبر ٹو‘ اور ’چھلاوہ‘ بھی کیں جبکہ اس سال وہ مزید فلمیں بھی کر رہے ہیں۔ فلموں سے دوری کی وجہ انہوں نے یہ بتائی کہ 80 کی دہائی میں انہوں نے کچھ فلمیں کی تھیں لیکن اس وقت فارمولا فلموں کے بہت زیادہ رحجان کی وجہ سے فلم کے بجائے ڈرامے کو ترجیح دی۔
پاکستانی شوبز انڈسٹری میں نئے آنے والے نوجوانوں کے حوالے سے محمود اسلم کا کہنا تھا کہ ’موجودہ دور کے نوجوان فلم میکر کافی اچھا کام کر رہے ہیں اور ان کی جوانی میں بڑی سکرین پر کچھ کرنے کی خواہش اب پوری ہو رہی ہے لیکن آج بھی وہ ہر فلم سائن نہیں کرتے بلکہ بہت سوج سمجھ کر ایک اچھی ٹیم کے ساتھ کام کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔‘ 

شیئر: