Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایسے کردار کی تلاش میں ہوں جو مطمئن کردے:حنا دلپزیر

حنا دلپزیر کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔ گیارہ سال قبل اپنے پہلے ہی پروجیکٹ ٹیلی فلم 'برنس روڈ کی نیلوفر' سے شہرت حاصل کرنے والی حنا نے پاکستانی سٹ کام 'بلبلے' میں مومو کے کردار کو اپنی بہترین اداکاری سے امر کردیا اور آج ملک کا ہر بچہ اور بڑا اس کردار سے واقف ہے۔ حنا کے دیگر مشہور ڈراموں میں 'قدوسی صاحب کی بیوہ' بھی قابل ذکر ہے جس میں انہوں نے بیک وقت 12 کردار ادا کیے۔ ان کے دیگر ڈراموں میں ’لیڈیز پارک‘، ’محبت جائے بھاڑ‘ میں اور ’عینی کی آئے گی بارات‘ شامل ہیں۔ حنا نے فلموں میں بھی کام کیا اور ان کی فلمیں ’سات دن محبت ان‘ اور ’پرے ہٹ لو‘ باکس آفس پر کامیاب رہ چکی ہیں۔ اپنی بہترین اداکاری پر وہ ملک کے اہم ایوارڈز بھی حاصل کرچکی ہیں۔  
حنا بہت کم انٹرویو دیتی ہیں لیکن اردو نیوز کے لیے انہوں نے خصوصی وقت نکالا اور اپنے حالیہ کام اور مستقبل کے ارادوں کے بارے میں بتایا۔    
دس سال قبل جب مومو کے کردار کا انتخاب کیا تو انہیں بلکل بھی اندازہ نہیں تھا کہ یہ کردار اتنا مقبول ہوگا کہ ان کی پہچان ہی بن جائے گا۔ حنا نے مزید بتایا کہ مومو کے کردار کو یہاں تک پہچانے میں میں 95 فیصد ان کا اپنا حصہ ہے۔ اس کے علاوہ پروڈیوسر نبیل اور ڈائیریکٹر رانا رضوان بھی ضرور ان کو ہدایات دیتے رہتے ہیں جبکہ ساتھی اداکار محمود اسلم بھی کریکٹر ڈویلپمنٹ میں بہت مدد کرتے ہیں۔

 

حنا نے اس بات کا انکشاف بھی کیا کہ بلبلے میں مومو کا کردار صرف ایک ہی قسط کے لیے لکھا گیا تھا اور وہ بطور مہمان اداکار اس میں بلائی گئی تھیں۔
’ڈرامے کی تقریباً 25 اقساط آن ایئر جا چکی تھیں اور چھبیسویں قسط میں مجھے آنا تھا۔ جب وہ قسط آن ایئر ہوگئی تو مجھے بتایا گیا کہ یہ کرادر بھی ڈرامے کے مستقل کرداروں میں شامل ہوگیا ہے۔ سیٹ پر جانے سے پہلے میں نے نبیل سے کہا تھا کہ مجھے اس کردار کے لیے ایک موٹا سا چشمہ چاہیے اور اس وقت میں نے یہ بالکل نہیں سوچا تھا کہ اگلے 10 سال تک مجھے یہ چشمہ پہننا پڑے گا۔‘
اپنی زندگی میں بلبلے کی اہمیت اور حیثیت کے متعلق حنا نے بتایا کی یہ ڈرامہ اور کردار ان کے اپنے لیے تو ایک دوا اور ذہنی سکون کی حیثیت رکھتے ہی ہیں بلکہ جو لوگ یہ ڈرامہ دیکھتے ہیں وہ بھی اپنی زندگی کی دیگر پریشانیوں کو تھوری دیر کے لیے بھول جاتے ہیں۔ اس کے لیے وہ اپنے آپ کو بہت خوش قسمت سمجھتی ہیں۔
کیا بلبلے کو اتنی مقبولیت ان کے کردار مومو کی وجہ سے ہی ملی تو حنا کا جواب نفی میں تھا۔

حنا نے بتایا کہ سیٹ پر جانے سے پہلے انہوں نے نبیل سے کہا تھا کہ مجھے اس کردار کے لیے ایک موٹا سا چشمہ چاہی۔ 

’ڈرامے میں ہم چاروں کے کردار اہم ہیں اور یہ کردار ہی چار بلبلے ہیں جن کی وجہ سے یہ ڈرامہ قائم ہے۔‘
دس سال گزرنے کے بعد بھی بلبلے کی بدستور مقبولیت کے بارے میں حنا کا خیال ہے کہ بلبلے کے چاروں کرداروں کے درمیان جو ایک طاقت اور توانائی ہے، وہی اس ڈرامے کی روح ہے اور وہی اس کی کامیابی اور انفرادیت ہے۔
’مجھے لگتا ہے جب آپ کسی کے ساتھ ایک طویل عرصے تک ایک ہی مقصد پر ایک شفاف تعلق کے ساتھ کام کرتے ہیں تو اس کی برکت بڑھ جاتی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ایسا نہیں ہے کہ ہمیں ایک دوسرے سے کبھی اختلاف نہیں ہوتا لیکن وہ اختلافات نظریاتی تو ہوسکتے، ذاتی نہیں۔ حنا کا ماننا ہے کہ جہاں دلوں میں فرق ہو، لوگ ایک دوسرے کے بارے میں مثبت رائے نہ رکھتے ہوں تو وہاں پر بہت اچھا کام نہیں ہوسکتا۔ بہتر نتائج کے لیے آپ کو دوسروں کے ساتھ بہترین رویہ رکھنا ضروری ہے۔
’برنس روڈ کی نیلوفر‘ سے شہرت حاصل کرنے کے بعد زیادہ تر کامیڈی کرداروں کا ہی انتخاب کیوں کیا تو حنا نے بتایا کہ دراصل یہ ایک ہدایت کار کا کام ہے کہ ایک آرٹسٹ کی صلاحیتوں کو کس طرح استعمال کرنا ہے۔  

دس سال قبل جب مومو کے کردار کا انتخاب کیا تو انہیں بلکل بھی اندازہ نہیں تھا کہ یہ کردار اتنا مقبول ہوگا۔ فوٹو: سوشل میڈیا

انہوں نے وضاحت کی کہ یہاں تک پہنچنے میں ہدایت کار مظہرمعین اور رانا رضوان نے ان کی بہت زیادہ مدد کی لیکن وہ ابھی بھی ایک ایسے اسکرپٹ کے انتظار میں ہیں جس میں وہ اپنی صلاحیتوں کو پوری طرح استعمال کرسکیں۔ کیونکہ ان کے حساب سے انہوں نے ابھی تک وہ کام نہیں کیا جو وہ کرنا چاہتی ہیں۔
وہ کس طرح کا کردار ہے جس کے وہ انتظارمیں ہیں تو حنا نے کہا وہ واضح طور پر نہیں بتا سکتیں لیکن اتنا جانتی ہیں کہ شاید ایک تشنگی ہے جو ابھی باقی ہے۔
ڈرامے اور فلم میں کسی ایک کو فوقیت دینے کے بارے میں حنا نے کہا کہ ٹی وی ڈرامے کی حالت کی وجہ سے اب اس میں ان کا مزید رحجان باقی نہیں رہا۔ انہوں نے کہا کہ مستقبل میں وہ فلم یا تھیٹر میں ہی زیادہ کام کریں گی۔
اداکاری میں اپنے رول ماڈل کے بارے میں حنا نے بتایا کہ ہماری نسل ٹیلیویژن دیکھتے ہوئے ہی بڑی ہوئی ہے جہاں بہت سے اداکار ہمارے آئیڈیل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بیگم خورشید شاہد کا ڈرامہ 'فہمیدہ کی کہانی استانی راحت کی زبانی' آج بھی ان کا پسندیدہ ڈرامہ ہے۔
’یہ ڈرامہ میں کوئی 22 بار دیکھ چکی ہوں۔ میرے ذہن پر اس کا ایک ایک منظر نقش ہے۔ میرے خیال میں یہ کردار خورشید شاہد کے علاوہ کوئی اور نہیں کرسکتا تھا۔‘
عظمیٰ گیلانی، خالدہ ریاست، روحی بانو، بشریٰ انصاری اور صبا حمید کو بھی حنا دلپذیر ٹیلیویژن ڈرامے کی قد آور شخصیات مانتی ہی۔

شیئر: