مظاہرے میں شامل ایک 70 سالہ خاتون شہری پیگی کول کا کہنا تھا کہ ’یہ امریکہ کے لیے خوفناک وقت ہے اور جمہوریت خطرے میں ہے۔‘
’میرے خیال میں صدر ٹرمپ ہماری حکومت، ہماری جمہوریت پر قبضہ کر رہے ہیں اور آہستہ آہستہ اس کو ختم کر رہے ہیں، اگر ہم بیٹھے رہے اور اس کے متعلق کچھ نہ کیا تو ایسا ہو جائے گا۔‘
واشنگٹن ڈی سی، بوسٹن، فلاڈیلفیا، اٹلانٹا، ڈینور، شکاگو اور سی ایٹل سمیت مختلف شہروں میں ہونے والی ریلیوں میں تقریباً 70 لاکھ کے قریب شہریوں نے شرکت کی جبکہ نیویارک میں ایک لاکھ سے زائد افراد سڑکوں پر نکلے۔
مظاہرین نے جمہوریت کے حق میں اور ٹرمپ انتظامیہ کی پالیسیوں بالخصوص امیگریشن قوانین کے خلاف پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے۔
ماضی میں ہونے والے مظاہروں کے مقابلے میں امریکہ بھر میں ہونے والا یہ احتجاج پُرامن رہا جو کسی میلے کا سماں پیش کر رہا تھا۔
مظاہرے میں شریک ایلسٹن ایلیٹ کا کہنا تھا کہ ہمیں آمروں کی ضرورت نہیں ہے، ’ہم جمہوریت کے لیے اپنی حمایت کے اظہار میں آئے ہیں اور جو ٹھیک ہے، اس کے لیے ہم لڑیں گے۔ ہم اختیارات سے تجاوز کے خلاف ہیں۔‘
مظاہرین نے جمہوریت کے حق میں اور ٹرمپ انتظامیہ کی پالیسیوں بالخصوص امیگریشن قوانین کے خلاف پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے: فوٹو اے ایف پی
مظاہرین میں سے چند پیلے لباس میں ملبوس تھے جس سے متعلق منتظمین کا کہنا تھا کہ یہ رنگ اتحاد کی علامت ہے اور عدم تشدد کی مزاحمتی تحریکوں کی طرف اشارہ بھی ہے۔
’پیلا ایک شوخ رنگ ہے جو یادہانی کرواتا ہے کہ لاکھوں کی تعداد میں شہری اس یقین کے ساتھ اکھٹے کھڑے ہوئے ہیں کہ امریکہ اس کے عوام کا ہے نہ کہ آمروں کا۔‘
مظاہرین نے جمہوریت کی اہمیت پر زور دیا اور کہا کہ صدر ٹرمپ کی ایگزیکٹو طاقت کے تجاوز کے باعث جمہوریت کے ختم ہونے کا خدشہ ہے۔
مظاہرے میں شامل ایک شہری جان پریس کا کہنا تھا کہ ’ہم ایک جمہوریت ہیں۔ جمہوریت میں لوگ کھڑے ہو کر اپنی رائے کا اظہار کر سکتے ہیں اور ہمیں خاموش نہیں کیا جائے گا۔‘