Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی ریستوران صنفی امتیاز کے خاتمے کے لیے تیار

مردوں اور خواتین کو اب ریستورانوں میں علیحدہ راستوں سے داخل نہیں ہونا پڑے گا (فوٹو:اے ایف پی)
سعودی عرب میں ریستورانوں کی انتظامیہ تاحال اس قانون پر غور و فکر کر رہی ہے جس کے تحت ریستورانوں میں داخلے کے لیے خواتین اور مردوں کو الگ الگ راستوں سے نہیں گزرنا پڑے گا۔
سعودی عرب میں شہریوں کی زندگیاں آسان بنانے اور ان کی سہولت کے لیے مردوں اور خواتین کو اب ریستورانوں میں علیحدہ دروازوں سے داخل نہیں ہونا پڑے گا۔
اس سے قبل ریستورانوں میں خواتین اور خاندانوں کے داخلے کے لیے الگ جبکہ مردوں کے لیے الگ دروازے سے داخلہ ضروری تھا۔ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے ملک میں انقلابی اقدامات کیے ہیں جن سے سعودی عرب کے حوالے سے عالمی رائے تبدیل ہوئی ہے۔
وزارت بلدیات و دیہی امور میں تعلقات عامہ کے جنرل مینیجر نائف ال اوتائیبی نے عرب نیوز کو بتایا کہ صنفی امتیاز اب اپنے اپنے انتخاب کا معاملہ ہے۔  ’یہ اختیاری ہے، ہم نے داخلی دروازوں کو مختص نہیں کر رکھا اس لیے شہریوں کی مرضی ہے کہ وہ چاہیں تو کسی بھی دروازے سے ریستوران میں داخل ہو سکتے ہیں۔‘
امریکن کافی چین سٹاربکس سمیت سعودی عرب میں بہت سے کیفے اور ریستورانوں میں عام طور پر خاندانوں اور مردوں کے لیے علیحدہ سیکشنز بنے ہوئے ہیں۔
سٹاربکس کو چلانے والا الشایا گروپ، دا چیز کیک فیکٹری، پی ایف چینگز اور کئی دوسرے ریستوران یہ واضح کر چکے ہیں کہ وہ جنس کی بنیاد پر اس امتیاز کا خاتمہ کریں گے۔

سعودی عرب میں زیادہ تر ریستوران وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلیاں اپنانے کے خواہش مند ہیں (فوٹو: عرب نیوز)

الشایہ گروپ کا کہنا ہے کہ ’ہم اپنے پرانے سٹورز کے ڈیزائن کو نئے قانون کے تحت تبدیل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں تاہم اس میں دو سال کا عرصہ درکار ہوگا۔‘
سٹاربکس کے عملے کے ایک رکن نے عرب نیوز کو بتایا کہ ’وہ (انتظامیہ) داخلی راستوں سے ایسے نشانات اور اشارے بھی ہٹا دیں گے جن میں خواتین اور مردوں کی علیحدہ جگہوں کی نشاندہی کی ہوتی ہے۔‘
کچھ سال پہلے تک سعودی عرب میں ایسا سوچنا بھی ممکن نہیں تھا، ملک میں خواتین کو ریستوران میں محرم کے بغیر بیٹھنے کی بھی اجازت نہیں تھی۔
ایک 37 سالہ سعودی خاتون نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اپنے ساتھ پیش آنے والا ایک ایسا ہی واقعی یاد کرتے ہوئے بتایا کہ انہیں قوانین کی خلاف ورزی پر مذہبی پولیس جن کی ڈیوٹی میں ’برائی کو روکنا اور نیک کاموں کی ترغیب دینا‘ شامل ہے، نے حراست میں لے لیا تھا۔
وہ اپنے کچھ دوستوں کے ہمراہ میکڈونلڈ ریستوران میں محرم کے بغیر بیٹھی تھیں۔
لیکن اب وہ ان تبدیلیوں سے بہت خوش ہیں اور کہتی ہیں کہ ریستورانوں میں جنسی بنیاد پر کی جانے والی اس علیحدگی کا خاتمہ ایک بہت بڑا اقدام ہے۔

سعودی عرب میں خواتین کو ریستوران میں محرم کے بغیر بیٹھنے کی بھی اجازت نہیں تھی (فوٹو:اے ایف پی)

انہوں نے سعودی ولی عہد کی جانب سے خواتین کی خود مختاری کے لیے روزگار کے مواقع فراہم کرنے، سماجی زندگی میں ان کے کردار کو مؤثر بنانے اور ان کی شخصی آزادی کے دائرہ کار کو بڑھانے کے لیے کیے جانے والے اقدامات کو بھی سراہا۔
سعودی خاتون کا مزید کہنا تھا کہ سعودی معاشرے کے کچھ تنگ نظر گروپ اب بھی ریستورانوں میں اس تفریق کا تسلسل چاہیں گے تاہم، زیادہ تر کیفے اور ریستوران وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلیاں اپنانے کے خواہش مند ہیں۔
35 سالہ ال ایمن محمود جو چار بچوں کے والد ہیں ہر ہفتے اپنے خاندان کو مختلف ریستورانوں میں لے کر جاتے ہیں۔
جدہ میں اپنی مختصر چھٹیوں کے دوران انہیں اس وقت پریشانی کا سامنا کرنا پڑا جب کچھ ریستورانوں میں مردوں اور خاندان کے لیے علیحدہ انتظامات نہیں تھے۔
انہوں نے عرب نیوز کو بتایا کہ ’میں فیصلے کا احترام کرتا ہوں مگر میں اس طرح خود کو پرسکون محسوس نہیں کرتا۔ ایک قدامت پسند گھرانے اور معاشرے میں پرورش پانے کے بعد یہ (فیصلہ) مجھ سے مطابقت نہیں رکھتا۔‘
ریاض میں ایک کافی شاپ کے مالک عبدالعزیز القہتانی نے بتایا کہ ’ہمارے پاس لوگ آتے ہیں اور علیحدہ سیکشنز کا پوچھتے ہیں لیکن ہمیں وقت کے ساتھ ساتھ خود میں بدلاؤ لانا ہوگا۔‘

شیئر: