Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’ووٹ کو عزت دو‘ اور شہباز کا کوٹ پینٹ

خاصے عرصے سے لندن میں مقیم شہباز شریف کو مصلحت کوشی کے طعنے بھی ملتے رہے ہیں۔ فوٹو: سوشل میڈیا
خوش لباسی ویسے تو کسی بھی شخصیت کی خوبی سمجھی جاتی ہے اور عموماً اپنے ماحول میں بآسانی نمایاں ہونے کا ذریعہ بھی۔ تاہم خوش لباسی کا مظاہرہ کبھی کبھار انسان کے لیے تنقید کا باعث بھی بن جاتا ہے۔
پاکستانی اپوزیشن لیڈر اور ن لیگ کے صدر شہباز شریف کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ کئی ہفتوں سے لندن میں مقیم شہباز شریف کی گزشتہ کچھ دنوں میں متعدد ایسی تصاویر سامنے آئیں جن میں ان کا لباس خصوصی توجہ کا مرکز رہا۔ ہر طرح کے موضوع پر بے تکان بولنے کی خاصیت رکھنے والے سوشل میڈیا نے اس موقع کو بھی خالی نہیں جانے دیا۔
شہباز شریف کے پوتے اور سلیمان شریف کے بیٹے نے اپنے دادا کی ایک تصویر شیئر کی جس میں وہ نیلے رنگ کے کوٹ پینٹ میں ملبوس دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے کھڑے ہونے کے انداز سے نمایاں ہے کہ تصویر کسی سرگرمی کے دوران کی نہیں بلکہ خاص طور پر بنائی گئی ہے۔

شہباز شریف کے لباس کی تصاویر شیئر کرنے والوں کو حالات سے ناواقف ہونے کا طعنہ بھی سننا پڑا۔
پاکستانی نیوز چینل کی اینکر عنبر رحیم شمسی نے ایسی ہی ایک ٹویٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ ’پاکستان میں لوگ بڑھتی قیمتوں اور بے رحم مہنگائی کا نشانہ ہیں، ایک رکن اسمبلی اور دیگر سیاسی کارکن بغاوت کے الزام میں گرفتار ہیں، ایسے میں لندن سے شہباز شریف کی وارڈ روب میں تبدیلی کی تصاویر شیئر کرنا بتاتا ہے کہ آپ سب ان معاملات سے کتنے لاتعلق ہیں۔‘

معاملہ اسی پر ختم نہیں ہوا بلکہ شہباز شریف کے حامیوں اور ناقدین کے درمیان بحث کچھ ایسے پہلو بھی سامنے لائی جو کم از کم تصویر شیئر کرنے کا مقصد نہیں ہو سکتے۔
شہباز شریف اپنے بھائی اور سابق وزیراعظم نواز شریف کی خراب طبیعت کے باعث جیل سے رہائی اور بیرون ملک روانگی کے وقت ان کے ہمراہ لندن گئے تھے۔ اس پیشرفت کو کسی نے ڈیل مانا تو کسی نے ڈھیل قرار دیا۔
ٹوئٹر صارف عمر وزیر نے شہباز شریف پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے نواز شریف کے ’ووٹ کو عزت دو‘ کے نظریے کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔

اس دوران سب سے بڑی اپوزیشن جماعت ن لیگ کی نسبتاً خاموشی ان چہ میگوئیوں کو تقویت بھی دیتی رہی، مقتدر حلقوں سے ن لیگ کی مبینہ یا ممکنہ مفاہمت پر یقین رکھنے والے گفتگو کا حصہ بنے تو ان کے سوال بھی یہی پس منظر لیے ہوئے تھے۔
اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں متعدد میڈیا ہاؤسز سے وابستہ رہنے والے عباس ناصر نے سوال کیا کہ ’سر، والد صاحب حلف سوٹ پہن کر اٹھائیں گے یا شیروانی میں؟‘

 

شیئر: