Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بریگزٹ پر پاکستانی نژاد برطانوی شہری کتنے خوش ہیں؟

برطانیہ میں مقیم پاکستانیوں نے بریگزٹ پر ملے جُلے ردعمل کا اظہار کیا ہے (فوٹو: اے ایف پی)
برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی پر وہاں مقیم پاکستانیوں کی بھی الگ الگ آرا ہیں۔ کچھ تو اس فیصلے کے حق میں ہیں لیکن کچھ اس سے خوش دکھائی نہیں دیتے۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے برطانیہ میں دو دہائیوں سے مقیم وجاہت خواجہ کا کہنا تھا کہ ’جب برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کے معاملے یعنی بریگزٹ پر 2016 میں ریفرنڈم ہوا تھا تب وہ سفر کر رہے تھے لیکن ان کی اہلیہ نے ووٹ ڈالا تھا۔‘
وہ اور ان کا خاندان چاہتا تھا کہ برطانیہ یورپی یونین کا حصہ رہے کیونکہ ان کا ماننا ہے کہ اس کے کئی فوائد ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ اگر آپ کا دل برطانیہ میں نہیں لگتا تو آپ باآسانی یورپ کے کسی بھی ملک منتقل ہو سکتے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ ’جب تک برطانیہ یورپی یونین کا حصہ تھا وہاں کے شہریوں کے پاس ’پاسپورٹنگ رائٹ‘ کے نام سے اختیار تھا جس کے تحت کسی بھی تاجر یا بزنس مین کا اگر لندن یا برطانیہ میں کہیں بھی دفتر ہے تو وہ یورپ میں کہیں بھی دفتر قائم کیے بغیر اپنی اشیا اور خدمات ’فریڈم آف سروس‘ کے تحت بیچ سکتے تھے۔
’اس کے علاوہ اشیا کی آزادانہ نقل و حمل کا بھی فائدہ رہا ہے جس کے تحت برطانیہ کی بندرگاہ سے نکل کر یورپی یونین کے ممالک جانے والے سامان پر ٹیکس لاگو نہیں ہوتا تھا۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’اس کے علاوہ یورپ سے کافی ٹیلنٹ برطانیہ آتا تھا، صحت کے شعبے میں بھی کافی لوگ آئے تھے۔‘ 
’یورپ سے لوگ خاص طور پر پھل اور سبزی کی کاشت کے موسم میں مزدوری کے لیے برطانیہ بھی آتے رہے ہیں۔‘
وجاہت خواجہ کا کہنا ہے کہ ’اب مستقبل غیر واضح ہے۔ 2020 کے آخر تک ہر چیز وہی رہے گی، مثلاً ابھی بھی وہاں جا کر نوکری کر سکتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اب تو ایگزٹ ہو گیا ہے لیکن دیکھنا یہ ہے حکومت تجارت کے حوالے سے کس قسم کا معاہدہ تیار کرتی ہے۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ ان کے مطابق اس فیصلے کے حق میں بات کرنے والے افراد کی خوشی کی وجہ کیا ہے؟ اس پر وجاہت خواجہ نے کہا کہ ’ان میں زیادہ تر شہری وہ ہیں جنہوں نے اس سے پہلے کا وقت دیکھا ہے جب برطانیہ یورپی یونین کا حصہ نہیں تھا۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’برطانیہ کے یورپ کا حصہ ہونے سے زیادہ تر مشرقی یورپ سے لوگوں کی یہاں امیگریشن ہو رہی تھی جس کی وجہ سے آبادی کے تناسب میں تبدیلی آرہی تھی۔‘   

بعض پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ بریگزٹ نے نسل پرستی کو فروغ دیا ہے (فوٹو: اے ایف پی)

ان کے مطابق مشرقی یورپ سے جو لوگ برطانیہ آتے تھے انہیں یہاں حکومت کی طرف سے کافی فائدے ملتے تھے جیسے گھر وغیرہ۔
ان کا ماننا ہے کہ جن لوگوں نے برطانیہ کی ترقی کے لیے کام کیا وہ آبادی کے بدلتے تناسب سے ناخوش تھے اور ’ہمیں ان کے نظریات کا احترام کرنا چاہیے۔‘
’اب دنیا میں علیحدہ رہنے کا رجحان ختم ہوتا جا رہا ہے تو برطانیہ کو چاہیے تھا کہ پالیسیوں پر مذکرات کر لیتے بجائے اس کے کہ یورپی یونین سے علیحدگی اختیار کرتے۔ اب چونکہ ایسا ہو گیا ہے تو ہمیں اس سے جو بھی فائدہ حاصل ہو سکتا ہے، لینا چاہیے۔‘
برطانیہ میں 1970 سے مقیم پاکستانی عامر حسین جو کہ وہاں پر پڑھاتے بھی ہیں کے مطابق ’یہ ایک مضحکہ خیز اقدم ہے۔ مہینوں کے مذاکرات سے کچھ حاصل نہ ہوا۔ دیکھنا ہے کہ ہم اب ان نئے قوانین سے کیسے نمٹتے ہیں جو نقل و حمل کی آزادی پر پابندی عائد کریں گے۔‘

کچھ پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ بریگزٹ کا احترام کرنا چاہیے (فوٹو: اے ایف پی)

ان کا ماننا ہے کہ ’یہ پاپندیاں ان ممالک پر لگائی گئی ہیں جو کہ برطانوی کمیونٹی کا حصہ تھیں۔‘
برطانیہ میں مقیم ایک اور پاکستانی نژاد شہری عاتقہ جنہوں نے 2016 میں بریگزٹ کے حق میں ووٹ ڈالا تھا، کا ماننا ہے کہ اس سے معیثت پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔
’برطانیہ کے شمال میں رہنے والے ہم بہت سے پاکستانیوں نے بریگزٹ کے حق میں ووٹ دیا تھا۔ آج بھی میں بریگزٹ کے حق میں ہوں۔‘
انگلینڈ کے علاقے بیڈفورڈشائر کی رہائشی عصمہ خان کا کہنا ہے کہ ’برطانیہ کے یورپی یونین کا حصہ ہونے پر سب کہتے تھے کہ گھروں کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔‘
’جب میرا بیگ چوری ہوا تھا تو پولیس کا کہنا تھا کہ کبھی کبھی یورپی ممالک سے آنے والے افراد یہاں چوری کر کے اُسی دن اپنے ملک واپس چلے جاتے ہیں تاکہ پولیس کو پتا نہ چلے۔‘

بعض پاکستانیوں کے مطابق بریگزٹ کا مستقبل میں برطانیہ کو فائدہ ہو گا (فوٹو: اے ایف پی)

بریگزٹ کے بارے میں برطانیہ کی ویسٹ منسٹر یونیورسٹی کے پروفیسر دبیش آنند کا کہنا تھا کہ برطانیہ میں جنوبی ایشیائی ممالک کے متعدد افراد نے بریگزٹ کے حق میں ووٹ دیا تھا خاص طور پر شمالی علاقوں میں رہنے والوں نے۔
ان کا ماننا ہے کہ ’ووٹنگ کے طریقہ کار کو دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ برطانیہ میں نسلی نہیں بلکہ علاقائی بنیادوں پر لوگ بٹے ہوئے ہیں۔‘
تاہم ان کے مطابق ’بریگزٹ کے حق میں مظاہرے کرنے والے زیادہ تر سفید فام قوم پرستوں میں جنوبی ایشیائی افراد کم ہی نظر آئے۔ بریگزٹ نے نسل پرستی کے جن کو بوتل سے نکال دیا ہے۔‘

شیئر: