Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بورس جانسن برطانیہ کے نئے وزیراعظم، بریگزٹ کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟

بورس جانسن کو برطانیہ کا نیا وزیراعظم منتخب کر لیا گیا ہے۔ موجودہ وزیراعظم ٹریزامے کے ملکہ الزبتھ کو استعفیٰ پیش کرنے کے بعد، بورس جانسن بدھ کو باضابطہ طور پر برطانیہ کے وزیر اعظم کا عہدہ سنبھال لیں گے۔
لندن کے سابق میئر بورس جانسن باآسانی اپنے ہم جماعت اور موجودہ سیکرٹری خارجہ جیرمی ہنٹ کو رائے شماری میں 45 ہزار 497 ووٹوں سے شکست دے کر وزیراعظم کے عہدے کے لیے نامزد ہوئے ہیں۔
کنزرویٹو پارٹی سے تعلق رکھنے والے نو منتخب وزیراعظم بورس جانسن کو بریگزٹ معاملے پر برسلز اور اپنی ہی جماعت کے اراکین کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا۔
بورس جانسن نے 2016 میں بریگزٹ مہم کی رہنمائی کی تھی اور برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کی آخری تاریخ 31 اکتوبر طے کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ یورپی یونین سے معاہدہ طے پائے بغیر ہی برطانیہ الگ ہو جائے گا۔
بورس جانسن وزیراعظم ٹریزامے کی بریگزٹ حکمت عملی سے اختلاف رکھتے تھے، اور اسی اختلاف کی بنا پر وہ ٹریزامے کی کابینہ سے 2018 میں بطور وزیر خارجہ مستعفی ہو گئے تھے۔
ٹریزامے کی یورپی یونین کے ساتھ بریگزٹ پر کی جانے والی ڈیل کو برطانیہ کی پارلیمنٹ کے ارکان نے بھی مسترد کیا ہے۔ 
تاہم یورپی یونین کے ہیڈکوارٹرز برسلز نے متنبہ کر دیا تھا کہ وزیراعظم  ٹریزامے کے ساتھ بریگزٹ پر کی جانے والی ڈیل پر دوبارہ بات چیت ممکن نہیں ہو گی۔

بورس جانسن نے 2016 میں بریگزٹ مہم کی رہنمائی کی اور برطانیہ کی یورپ سے علیحدگی کی آخری تاریخ 31 اکتوبر طے کی تھی، تصویر: روئٹرز

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بورس جانسن کی جیت کی خبر آتے ہی انہیں مبارک باد کی ٹویٹ کی۔
بورس جانسن جون 1964 میں امریکی ریاست نیو یارک میں پیدا ہوئے جب ان کے والد امریکہ کی انتہائی معتبر یونیورسٹی ’یونیورسٹی آف کولمبیا‘ میں تعلیم حاصل کر رہے تھے۔
بورس جانسن تعلیم مکمل کرنے کے بعد 1983 سے لے کر 2005 تک صحافت کے پیشے سے منسلک رہے۔ 1988 میں ان کو ’ٹائمز‘ اخبار سے ’بیانات‘ گھڑنے کے الزام پر نکال دیا گیا تھا۔ اس کے بعد وہ 2005 تک ڈیلی ٹیری گراف اور دیگر اخبارات کے ساتھ منسلک رہے۔
2001 میں وہ کنزرویٹو پارٹی کے ٹکٹ پر پہلی دفعہ برطانیہ کی پارلیمان کے رکن بنے تھے۔ 
بورس جانسن دو مرتبہ (2012-2008)  اور (2016-2012) لندن کے میئر منتخب ہوئے، ان کے دور میں لندن نے اولمپکس کی میزبانی بھی کی تھی۔

شیئر: