Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

صدر ٹرمپ کا امن منصوبہ فلسطینیوں کو کیوں قبول نہیں؟

 امن منصوبے میں بیت المقدس کو اسرائیل کا مشترکہ دارالحکومت مانا گیا ہےفوٹو: اے ایف پی
فلسطینی اتھارٹی نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پیش کردہ مشرق وسطیٰ امن منصوبے کو مسترد کرتے ہوئے امریکہ اور اسرائیل سے تعلقات ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں عرب لیگ کے اجلاس میں فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس نے کہا کہ ’ہم نے اسرائیل کو آگاہ کر دیا ہے کہ ان کے ساتھ کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں رکھیں گے اور امریکہ کے ساتھ بھی، جس میں سکیورٹی تعلقات بھی شامل ہیں۔‘
واضح رہے کہ اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی کی سکیورٹی فورسز مقبوضہ مغربی کنارے میں طویل عرصے سے ایک دوسرے سے تعاون کر رہی تھیں۔

 

فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ نے ان کے لیے ایسی ریاست تجویز کی ہے جو مکمل خودمختاری سے محروم ہوگی۔ یہ ریاست حصوں بخروں میں ہوگی۔ جسے راہداریوں، سڑکوں اور انڈر پاس سے جوڑا جائے گا۔
الشرق الاوسط کے مطابق فلسطینی صدر محمود عباس نے امریکی امن منصوبے کا جواب ایک جملے میں یہ کہہ کر دیا ’کوئی ایک فلسطینی بھی امریکی صدر کو ایسا نہیں ملے گا جو بیت المقدس کے بغیر موجودہ شکل میں امن منصوبے کو قبول کرلے‘۔
فلسطینی’دریا سے سمندر تک‘ اپنی ریاست کے تاریخی نقشے کو ازبر کیے ہوئے ہیں۔ 

امریکی صدر کا کہنا ہے کہ دو ریاستی فارمولے پر مشتمل امن منصوبہ حقیقت پسندانہ ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

امن منصوبے پر امریکی صدر کا کہنا ہے کہ دو ریاستی فارمولے پر مشتمل امن منصوبہ حقیقت پسندانہ ہے۔ فلسطینیوں کا موقف ہے کہ اس منصوبے میں ان کے بنیادی حقوق ختم کر دیے گئے ہیں۔
القدس کو امریکی امن منصوبے میں اسرائیلی ریاست کا دارالحکومت قرار دیا گیا ہے۔ القدس کے بغیر مسئلہ فلسطین کا کوئی بھی حل اہل فلسطین کو قبول نہیں۔
امریکی امن منصوبے میں جون 1967 کی سرحدوں میں ردو بدل کیا گیا ہے۔ فلسطینی اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق اس میں کسی ردوبدل کے روا دار نہیں۔
فلسطینی پناہ گزینوں کی وطن واپسی اور غرب اردن میں اسرائیلی آبادیوں کو ہٹانے پر فلسطینی بضد ہیں جبکہ امریکی امن منصوبے میں ان دونوں مطالبات سے انکار کیا گیا ہے۔
امریکی امن منصوبے میں بیت المقدس، یہودی بستیوں، 1967 کی سرحدوں، بری اور فضائی حدود اور غرب اردن پر اسرائیل کا قبضہ تسلیم کیا گیا ہے۔ فلسطینیوں کو یہ سب کچھ قبول نہیں۔
امریکی امن منصوبہ 181صفحات پر مشتمل ہے۔ کئی اہم نکات سے فلسطینیو ں  کو اختلاف ہے۔
 امن منصوبے میں بیت المقدس کو اسرائیل کا مشترکہ دارالحکومت مانا گیا ہے اور القدس کے قریب واقع قصبے ابو دیس کو جس کا رقبہ چار مربع کلومیٹر سے زیادہ کا نہیں فلسطینی دارالحکومت تجویز کیا گیا ہے۔ 

فلسطینی مشرقی القدس کو جہاں مسجد اقصیٰ اور مقدس مقامات موجود ہیں اپنا دارالحکومت بنانا چاہتے ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی

الشرق اوسط کے مطابق فلسطینی اس منصوبے کو مسترد کرتے ہیں اور مشرقی القدس کو جہاں مسجد اقصیٰ اور مقدس مقامات موجود ہیں اپنا دارالحکومت بنانا چاہتے ہیں۔ اسے سرخ نشان مانتے ہیں۔
امریکی امن منصوبے میں اسرائیل کو غور الاردن سمیت غرب اردن کے متعدد علاقوں پر اسرائیلی بالادستی تسلیم کی گئی ہے۔ اس کے تحت اسرائیلی بستیاں بھی آتی ہیں جہاں چار لاکھ یہودی آباد کار بسے ہوئے ہیں۔ 
فلسطینی اپنی ریاست کا اٹوٹ حصہ ہونے کے ناتے اغوار کے علاقے کو 99 سالہ تک کے پٹے پر دینے کی تجویز پہلے سے ہی مسترد کر چکے ہیں۔
امریکی امن منصوبے میں علاقوں کے تبادلے کی با ت کہی گئی ہے۔ اس کے تحت فلسطینیوں کو صحراءا لنقب کے کچھ علاقے دیے جائیں گے جبکہ اس کے بدلے فلسطینیوں کو یہودی بستیاں اپنے علاقوں میں برقرار رکھنے کی پابندی لگائی گئی ہے۔ فلسطینی اپنے علاقوں میں یہودی بستیوں کو مسترد کر چکے ہیں۔
امن منصوبے کے تحت فلسطینیوں کو تسلیم کرنا ہوگا کہ اسرائیل یہودی ریاست ہے۔ یہ فلسطینیوں کی تاریخی اور مذہبی روایت کے سراسر منافی ہے اور ایسا کرنے پر اسرائیل میں موجود عرب باشندوں کا مستقبل خطرات سے دوچار ہو جائے گا۔

منصوبے میں فلسطینی پناہ گزینوں کا مسئلہ اسرائیل سے باہر حل کرنے کی بات کہی گئی ہے۔

صدر ٹرمپ کے منصوبے میں فلسطینی پناہ گزینوں کا مسئلہ اسرائیل سے باہر حل کرنے کی بات کہی گئی ہے۔ دس برس تک سالانہ پانچ لاکھ پناہ گزین مسلم ریاستوں میں آباد کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پناہ گزینوں کی وطن واپسی کا حق مسترد کر دیا گیا ہے۔ 
فلسطینی اتھارٹی نے ماضی میں تجویز کیا تھاکہ ایک مقررہ تعداد میں پناہ گزینوں کو وطن واپس آنے کا حق دیا جائے اور دیگر کو معاوضہ دینے پر اکتفا کیا جائے مگر یہ بات تسلیم نہیں کی گئی تھی۔
امن منصوبے میں تجویز کیا گیا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی یا کسی اور فریق کو جو عالمی برادری کے لیے قابل قبول ہو غزہ پٹی کا کنٹرول دے دیا جائے۔ یہ کام حماس کی منظوری کے بغیر انجام نہیں دیا جاسکتا۔
امن منصوبے میں غرب اردن اور غزہ کے درمیان محفوظ گزر گاہ کا قیام تجویز کیا گیا ہے۔ یہ پہلے سے ہی موجود ہے۔ 44 کلو میٹر طویل راہداری 1999ء میں کھول دی گئی تھی مگر سنہ 2000 سے اسرائیل اسے بند کیے ہوئے ہے۔
صدر ٹرمپ کے منصوبے میں اردن اور فلسطین کے درمیان آزاد تجارتی زون قائم کرنے کی بات کہی گئی ہے۔ سامان اردنی ایئرپورٹ سے برآمد کرنے کی تجویز رکھی گئی ہے۔
الشرق اوسط کے مطابق امریکہ کے ساتھ بھی تجارتی معاہدے کا امکان ظاہر کیا گیا ہے۔ یہ ساری تجاویز ایسی ہیں جو بہت ساری گتھیاں سلجھائے بغیر حل نہیں ہوسکتیں اور ہر حال میں اسرائیل کو بالا دستی رہے گی۔
مسجد اقصیٰ میں نماز سے متعلق کہا گیا ہے کہ تمام مذاہب کے پیرو کاروں کو پرامن طریقے سے عبادت کا موقع دیا جائے گا۔
صدر ٹرمپ کے منصوبے کے تحت القدس کے فلسطینی باشندوں کو اسرائیل یا فلسطین میں سے کسی ایک کی شہریت کا انتخاب کرنا ہوگا۔ یہ نکتہ فلسطینیوں اور مسلمانوں کے لیے خطرناک ہے۔ اس میں یہودیوں کو مسجد اقصیٰ میں عبادت کا حق دیا جا رہا ہے جو اسرائیل اوراردن کے درمیان طے شدہ زمینی سمجھوتے کے منافی ہے۔

شیئر: