Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’انڈین پولیس طلبہ کو ہراساں کر رہی ہے‘

انڈیا میں انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق ریاست کرناٹک کے ایک پرائمری سکول پر لگائے گئے بغاوت کے الزام کے بعد پولیس معصوم طالبعلموں سے سکول میں پیش کیے گئے شہریت کے متنازع قانون پر ایک خاکے سے متعلق بار بار پوچھ گچھ کر کے  ’ہراساں‘ کر رہی ہے۔
خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق وزیراعظم نریندر مودی کی ہندو نیشنلسٹ جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی یوتھ ونگ کے ایک رکن نے سکول کے خلاف پولیس کو شکایت درج کروائی تھی جس پر پولیس نے درجن سے زائد طالبعلموں سے پوچھ گچھ کی جنہوں نے خاکے میں اداکاری کی۔
خاکے کو پیش کرنے کی مدد کے الزام میں اس پرائمری سکول کی دو خواتین کو برطانوی راج کے قانون تحت گرفتار کیا گیا ہے۔ 
ریاست کرناٹک کے بچوں کے تحفظ کے کمیشن کے سربراہ انتھونی سیباسچین کے مطابق پولیس کی جانب سے بچوں سے خاکہ سے متعلق سوالات ہوئے۔
سکول کی سی سی ٹی وی فوٹیج میں دو پولیس اہلکاروں کو دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک پولیس اہلکار بچوں سے پوچھ گچھ کر رہا ہے جبکہ دوسرا ان بچوں کی ویڈیو ریکارڈنگ کر رہا ہے۔
دوسری ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ سادہ لباس والے پولیس اہلکار یونیفارم پہنے بچوں کو دوسرے کمرے میں لے جا رہے ہیں اور ان سے سوالات کر رہے ہیں۔
اس خاکے میں ایک خوف زدہ خاندان کو دکھایا گیا جس میں ان کو یہ ڈر ہے کہ حکومت لاکھوں مسلمانوں سے ان کی شہریت ثابت کرنے کے ثبوت مانگے گی یا ان کو انڈیا سے نکال دیا جائے گا۔
انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے انڈین حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ سکول پر بغاوت کے الزام کو واپس لیا جائے۔
’ یہ شرمناک ہے کہ پولیس سکول کے بچوں کو نہ صرف دھمکا رہی ہے بلکہ ان کو ہراساں بھی کر رہی ہیں اور ان سے بار بار خاکے سے متعلق پوچھ گچھ کر رہی ہے۔‘

انڈیا میں شہریت کے ترمیمی بل کے خلاف طلبہ کی جانب سے ملک بھی میں احتجاج ہو رہے ہیں (فوٹو:اے ایف پی)

پولیس افسر ٹی سری دھارا نے خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ بچوں سے پوچھ گچھ کے وقت ان کے اہلکار قانون کی پیروی کر رہے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ پوچھ گچھ اب بھی جاری ہے۔
1860 کے برطانوی راج کے بغاوت کے قانون کے تحت عمر قید کی سزا ہو سکتی ہے۔
انسانی حقوق کے کارکنوں کے مطابق حکام مخالفین کے خلاف اس قانون کا غلط استعمال کرتے ہیں۔
بدھ کو انڈیا کے ایک وزیر نے پارلیمان کو بتایا تھا کہ 2014 سے 2018 کے درمیان 230 لوگوں پر بغاوت کے مقدمات درج ہوئے۔

شیئر: