Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انڈیا میں مسلمان طالبات کے برقع پہننے پر تنازع کیوں؟

پابندی کی خلاف ورزی پر 250 انڈین روپے جرمانہ مقرر کیا گیا تھا (فوٹو: اے ایف پی)
انڈیا کی شمالی ریاست بہار کے دارالحکومت پٹنا میں ایک گورنمنٹ گرلز کالج کی انتظامیہ نے پہلے کالج کی مسلمان طالبات کے برقع پہننے پر پابندی عائد کی اور بعد میں اسے واپس لینے کا اعلان کر دیا ہے۔
اس ہفتے پٹنا کے جے ڈی وومن کالج کی انتظامیہ نے مسلمان طالبات پر کالج اور کلاس رومز کے اندر برقع پہننے پر پابندی عائد کر دی تھی۔
تاہم سنیچر کو کالج انتظامیہ نے پابندی واپس لینے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کا مقصد کسی خاص گروہ کی طالبات کو تنگ یا ہراساں کرنا نہیں تھا۔
انڈین نیوز چینل این ڈی ٹی وی کے مطابق کالج کے حکام نے وضاحتی بیان میں کہا ہے کہ برقع پہننے پر پابندی غلط فہمی کا نتیجہ تھی۔
خیال رہے جے ڈی کالج نے طالبات کو جاری یے گئے نوٹس میں کہا تھا کہ انہیں برقع پہن کر کالج آنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ انتظامیہ کا کہنا تھا کہ پابندی کی خلاف ورزی پر جرمانہ عائد کیا جائے گا۔
نوٹس کے مطابق ’تمام طالبات کو کالج کے مقرر کردہ ڈریس کوڈ کے مطابق آنا ہوگا۔ طالبات برقع پہن کر کالج نہیں آسکتیں۔‘
نوٹس کے مطابق پابندی کی خلاف ورزی پر 250 انڈین روپے جرمانہ مقرر کیا گیا تھا۔
قبل ازیں سکول کے پراکٹر وینا آمرت نے پابندی کا دفاع کرتے ہوئے انڈین اخبار ہندوستان ٹائمز کو بتائی تھی کہ پابندی کلاس روم اور کالج میں ہم آہنگی یقینی بنانے کے لیے لگائی گئی ہے۔
سنیچر کو کالج کی پرنسپل شیاما رائے نے این ڈی ٹی وی کو بتایا کہ کالج میں طالبات پر برقع پہننے پر پابندی واپس لی گئی ہے۔

پابندی کی خلاف ورزی پر 250 روپے جرمانہ رکھا گیا تھا (فوٹو: سوشل میڈیا)

ان کا کہنا تھا کہ اب کالج انتظامیہ نے دوسرا نوٹس جاری کیا ہے جس میں وضاحت کی گئی ہے کہ کالج میں برقع پہننے پر کوئی پابندی نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ کالج میں نافذ ڈریس کوڈ کے مطابق طالبات کے لیے میرون رنگ کا کُرتا، سفید شلوار اور دوپٹا پہننا لازمی ہے۔
ان کے مطابق طالبات اگر چاہیں تو برقہ پہن کر کالج آسکتی ہیں اور کلاس روم میں اسے اتار کر پڑھائی کر سکتی ہیں۔
مسلمان طالبات کے برقع پہننے پر پابندی لگائے جانے کے حوالے سے سوشل میڈیا صارفین کا ردعمل بھی سامنے آیا ہے۔
دی راکس نامی ایک صارف نے ٹویٹ کی کہ ’اکیسویں صدی کی سب سے بڑی جمہوریت تیزی سے ڈکٹیٹر ہندو ریاست میں تبدیل ہو رہی ہے۔‘
کامک انڈین نامی صارف نے پابندی کی تعریف کرتے ہوئے لکھا ’ویلڈن: برقع اور حجاب جنسی غلامی کی علامتیں ہیں۔ یہ غلامی کی علامت اور خواتین کو محض کسی کی جنسی تسکین کی چیز سمجھنے کا نام ہے۔‘
ناد نامی صارف نے لکھا کہ ’اظہار کی آزادی، خوراک اور لباس تمام انڈینز کے بنادی حقوق میں شامل ہیں۔ کالج کو ڈریس کوڈ کے بجائے عام یونیفارم رائج کرنا چاہیے۔‘

شیئر: