دلی کی جامع مسجد اور اس کے آس پاس کے علاقوں میں اگر آپ کو کچھ سیاستدان بریانی بنانے کا طریقہ معلوم کرتے نظر آئیں تو حیران مت ہویے گا۔
یا ہندو مذہبی کتابوں کی دکانوں پر ’ہنومان چالیسے‘ کی ڈیمانڈ اچانک بڑھ جائے تو یہ مت سوچیے گا کہ لوگوں میں مذہب کی طرف رحجان بڑھ رہا ہے۔
مزید پڑھیں
-
آؤٹ آف دی باکس تھِنکنگ!Node ID: 457506
-
دہلی انتخابات: عام آدمی پارٹی نے تیسری بار میدان مار لیاNode ID: 458346
-
دہلی انتخابات یا انڈیا پاکستان کرکٹ میچ؟Node ID: 458401
جو پہلے مذہبی تھے وہ اب بھی ہیں لیکن سیاست اور سیاستدانوں کے رنگ بدل رہے ہیں۔ دلی کے ہوش ربا انتخابات میں ہوا وہی جس کا زیادہ تر لوگوں کو اندازہ تھا۔ بی جے پی صاف، آپ کی غلطیاں بھی معاف۔
اور اس کے بعد کچھ لوگوں کو اب شاید لگنے لگا ہوگا کہ بریانی اور ہنومان چالیسے سے ہی الیکشن جیتا جاسکتا ہے۔
بھارتیہ جنتا پارٹی نے یہ الیکشن پاکستان، قومی سلامتی، دراندازی، شہریت کے ایک نئے متنازع قانون، ہندو مسلمان اور بریانی کے نام پر لڑا۔ لیکن اس سب کے باوجود 70 میں سے صرف سات سیٹیں ہی ہاتھ آئیں۔
عام آدمی پارٹی نے بجلی پانی، صحت اور دیگر شہری سہولیات کو اپنی انتخِابی مہم کا مرکزی حصہ بنایا اور لگاتار دوسری مرتبہ اسمبلی میں تین چوتھائی اکثریت حاصل کرلی۔
کانگریس پارٹی کو خبر ہونے میں ذرا دیر ہوگئی کہ دلی میں الیکشن ہو رہا ہے۔ اس لیے اب کانگریس کی نیند میں خلل ڈالنے کا کوئی فائدہ نہیں۔
تو بس یوں سمجھیے کہ بی جے پی بریانی کو ٹھیک سے کیش نہیں کرا پائی۔ سات سیٹیں تو بریانی کا ذکر کیے بغیر بھی آجاتیں۔ دلی کے لوگ کھانے پینے کے شوقین ہیں، ہوسکتا ہے کہ انہیں بریانی کی توہین ہی بری لگی ہو۔
لیکن بات صرف بریانی پر ہی ختم نہیں ہوئی۔ جن لوگوں سے بریانی منسوب کی جاتی ہے، وہ تو نشانے پر تھے ہی، باقی لوگوں پر انہیں بریانی کھلانے کا الزام تھا۔ جیسے بریانی کھاتے یا کھلاتے ہوئے پکڑا جانا بھی کوئی جرم ہو۔
بی جے پی کے سینیئر رہنما کانگریس اور آپ کے اوپر پاکستان کی زبان بولنے اور ’دیش کے غداروں‘ کو بریانی کھلانے کا الزام لگاتے رہے۔ ایک سینیئر وفاقی وزیر نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ یہ الیکشن قوم پرستوں اور غداروں کے درمیان ہے۔
لیکن ووٹر بھی عجیب چیز ہے، انہوں نے ’غداروں‘ کو ہی اقتدار سونپ دیا جیسے کہہ رہے ہوں کہ: سر ساری! ہمیں قوم پرستی اور غداری کی اس بحث میں نہیں پڑنا، قومی سلامتی اور پاکستان کو سبق سکھانے کا کام وفاقی حکومت کا ہے، وہاں ہم نے وزیر اعظم نریندر مودی کو بٹھا رکھا ہے، دلی میں بجلی پانی اور صفائی کی لڑائی ہے، اس چھوٹے سے کام کے لیے نریندر مودی اور بی جے پی کے صدر امت شاہ کو زحمت دینے کی کیا ضرورت ہے، وہ بڑی توپیں ہیں، یہ کام عام آدمی پارٹی والے ٹھیک ٹھاک کرتے رہے ہیں، انہیں ہی کرنے دیجیے، بلا وجہ دوسرے اہم کاموں سے آپ کی توجہ ہٹے گی۔۔۔
اور بی جے پی اگر سنے تو اس کے لیے یہ اچھا مشورہ ہوگا کہ وہ انتخابی نتائج کو غداروں کی فتح نہ مانے۔ قوم پرستی پارٹی کے لیے اگر کوئی الیکشن کارڈ ہے تو ووٹروں کا پیغام بھی صاف ہے: اس کارڈ کی ایکسپائری ڈیٹ قریب ہے۔ لیکن بی جے پی آسانی سے سنتی کہاں ہے، شدت بھلے ہی مختلف ہو، یہ ہی پیغام اسے مدھیہ پردیش، راجستھان، ہریانہ، چھتیس گڑھ، جھاڑکھنڈ، مہارشٹر اور کرناٹک کے ووٹر بھی دے چکے ہیں۔
تو پیغام نمبر ایک: بریانی کھلانے کے الزام سے منافرت بڑھتی ہے۔ بریانی اور آلو پوری میں فرق کرنا بند کیجیے۔ کھانے کی میز پر دونوں کی برابر اہمیت ہے، جسے جو پسند ہو اسے وہ مبارک! لیکن افسوس کہ پیغام سنتا کون ہے، پارٹی جب انتخابی نتائج کا تجزیہ کرے گی تو ہو سکتا ہے کہ اسی نتیجے پر پہنچے کہ عام آدمی پارٹی نے لوگوں کو بریانی کھلائی تھی اس لیے جیت گئی!
اور ہنومان چالیسا؟ انتخابی مہم کے دوران ایک ٹی وی اینکر نے دلی کے وزر اعلی اروند کیجریوال سے پوچھا کہ کیا آپ ہنومان کے ’بھکت‘ ہیں؟ کیجریوال نے کہا کہ ہاں۔ اینکر نے پوچھا کہ کیا آپ کو ہنومان چالیسا یاد ہے؟ کیجریوال نے کہا کہ ہاں!
اور پھر گا کر سنا بھی دیا۔
اور اس کے بعد انہوں نے کہا کہ بی جے پی والے فرضی ہندو ہیں، انہیں ہنومان چالیسا بھی نہیں آتا! کس نے سوچا ہوگا کہ کوئی چوبیس گھنٹے ہندوتوا کی بات کرنے والے بی جے پی والوں کو بھی فرضی ہندو بتا سکتا ہے۔
تو پیغام نمبر دو: ہنومان چالیسا پڑھ کر کیجریوال نے ووٹروں کو یہ بتایا کہ ہندو مذہب پر بی جے پی کی اجارہ داری نہیں ہے۔ لیکن کوئی حیرت نہیں ہونی چاہیے کہ اگلے کسی بھی الیکشن سے پہلے بی جے پی کے تمام امیدواروں کو یہ ہدایت جاری کر دی جائے کہ وہ سب ہنومان چالیسا یاد کرنے کے بعد ہی انتخابی مہم میں حصہ لیں۔
لیکن بریانی کی طرح انتخابی مہم میں ہنومان چالیسے کا استعمال بھی جمہوریت کے لیے بری خبر ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مذہب اب سیاست کا ’اٹوٹ‘ حصہ بن گیا ہے اور یہ وہ صاف شفاف اور ’فریش‘ انداز کی سیاست نہیں ہے جس کے وعدے کے ساتھ عام آدمی پارٹی سیاسی منظرنامے پر آئی تھی۔ پہلے صرف بریانی کھانے والوں کی وفاداری مشکوک تھی، اب ہندوؤں کو بھی یہ ثابت کرنا پڑ رہا ہے کہ وہ کتنے مذہبی ہیں۔
تیسرا پیغام کانگریس کے لیے ہے اور وہ یہ کہ بھائی سیاست کرنی ہے تو اب اٹھ بھی جاؤ۔ دلی کی اسمبلی میں لگاتار دوسری مرتبہ کانگریس کا کوئی نمائندہ نہیں ہوگا۔ اور یہاں 2015 تک 15 سال سے کانگریس کی سرکار تھی!
لیکن سیاست میں کب کیا ہو جائے کسے خبر۔ کشمیر کی ہی مثال لے لیجیے جہاں تین وزرا اعلیٰ سمیت کئی سرکردہ رہنما چھ مہینوں سے حراست میں ہیں۔ اب سابق وزیراعلی عمر عبداللہ کے خلاف پبلک سیفٹی ایکٹ (پی ایس اے) لگانے کا فیصلہ کیا گیا ہے جس کے تحت انہیں بغیر مقدمہ چلائے دو سال تک حراست میں رکھا جاسکتا ہے۔ ان کے خلاف پی ایس اے کے آرڈر میں کہا گیا ہے کہ کشمیر میں ان کا بہت اثر و رسوخ ہے جس کا ثبوت یہ ہے کہ جب ریاست میں عسکریت پسندی اپنے عروج پر تھی، تب بھی وہ (الیکشن کے بائکاٹ کی اپیلوں کے باوجود) لوگوں کو ووٹ ڈالنے پر مائل کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے!
عام حالات میں ایسا کرنے والوں کو جمہوریت کے علم بردار قوم پرستوں کی فہرست میں شامل کیا جاتا۔
لیکن یہ عام حالات کہاں ہیں۔
جمہوریت، قوم پرستی اور غداری کے مزاج اور معنی، دونوں بدل رہے ہیں!
-
واٹس ایپ پر خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں